کتاب: مغالطے مبالغے
مصنف: مبارک حیدر | تبصرہ: ارشاد شمیم
دی بلوچستان پوسٹ
مبارک حیدر پاکستان کے ایک معروف دانش ور، ماہرِ نفسیات، کالم نگار اور مصنف ہیں۔ انہوں نے 1963ء میں گارڈن کالج راولپنڈی سے انگریزی ادبیات میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ ایک شاعر اور انقلابی مفکر کی حیثیت سے ملک بھر میں انہیں خوب پزیرائی مل چکی ہے۔ دانش وروں اور طلباء کو منظم کرتے ہوئے فکری مکالمے کے فروغ میں وہ اہم کردار ادا کر چکے ہیں۔ ان کا قلم سیاسی، فکری اور سماجی امور پر بھی کئی تحریریں عوام کو عنایت کر چکا ہے۔ ان کی تحریروں میں خاص طور پر مسلم معاشروں کی ذہنی کیفیت، تضادات، اور انتہا پسندی کے اسباب کا تجزیہ ملتا ہے۔
مختصر یہ کہ پروفیسر مبارک حیدر ایک سنجیدہ مفکر ہیں جو پاکستانی اور مسلم سماج کے بارے میں نقادانہ نقطہ نظر رکھتے ہیں، اور ان کی تحریریں بحث و مکالمہ کو جنم دیتی ہیں۔
کتاب “مغالطے اور مبالغے” پروفیسر مبارک حیدر کی تصنیف ہے، جسے سانجھ پبلی کیشنز نے لاہور سے شائع کیا ہے۔ کتاب “مغالطے مبالغے” ایک فکری و تنقیدی تخلیق ہے جس میں ہمارے معاشرتی، فکری اور تہذیبی رویوں کا نہایت جرأت مندانہ تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ یہ کتاب دراصل ہمارے اجتماعی شعور کی کم زوریوں اور اس کے پس منظر میں موجود تاریخی و سماجی عوامل کو سامنے لائی گئی ہے۔
اس کتاب میں مصنف نے مذہبی، قومی اور تہذیبی بیانیے میں موجود ان مغالطوں اور مبالغوں کی نشاندہی کی ہے جو ہمارے ہاں حقیقت پسندی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم اپنی تاریخ، اپنی شناخت اور اپنے مسائل کو سمجھنے کے بجائے فرضی عظمت اور جذباتی بیانیے میں قید ہیں۔
ان کے مطابق ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم تاریخ کو سچائی کے ساتھ نہیں دیکھتے بلکہ اپنے مفاد کے مطابق اس میں رنگ بھرتے ہیں۔ اور ہم حقیقت کو ماننے کے بجائے انا کی تسکین کے لیے مبالغہ آرائی کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ معاشرہ ترقی کی راہ پر نہیں چل پاتا۔
اس کتاب میں یہ نکتہ بھی نمایاں ہے کہ ہم مذہب اور ثقافت کے حوالے سے کئی غیر حقیقی تصورات کو حقیقت کا روپ دے بیٹھے ہیں۔ لیکن یہ کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ اپنے ماضی کے بجائے حال اور مستقبل پر توجہ دینی چاہیے۔ جدید سائنس، عقل اور تنقیدی فکر کو اپنانا ہی مسائل کا حل ہے۔
یہ کتاب دراصل ہمارے اجتماعی شعور کے آئینے پر پڑی ہوئی گرد کو صاف کرنے کی باہمت کوشش ہے۔ یہ محض تنقیدی تحریر نہیں بلکہ ایک فکری صدائے احتجاج ہے جو قاری کو خوابیدہ تسکین اور خود ساختہ عظمت کے خول سے نکال کر تلخ حقیقت کے روبرو لا کھڑا کر دیتی ہے کہ کس طرح ہم نے تاریخ کو افسانہ، مذہب کو جذبات، اور قومیت کو مبالغے کے غلاف میں لپیٹ کر اپنے لیے ایک خیالی دنیا تراشی ہے۔ مگر یہ دنیا نہ ہمیں ترقی دے سکی اور نہ ہی حقیقت کا سامنا کرنے کی ہمت۔ صاحبِ کتاب کے جملے تیز ہیں، مگر ان کی کاٹ میں خلوص کی گرمی اور فکری ایمانداری کی روشنی جھلکتی ہے۔
“مغالطے مبالغے” قاری کو محض پڑھنے پر نہیں بلکہ سوچنے اور جھنجھوڑنے پر مجبور کرتی ہے۔ یہ کتاب ان لوگوں کے لیے ہے جو سوال کرنے کی ہمت رکھتے ہیں، اور جواب تلاش کرنے کا حوصلہ بھی۔
اس کتاب کے مطالعے کے بعد انسان کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ بحیثیت مسلمان اور پاکستانی مجھ سمیت ہمارے معاشرے کے اکثر لوگ مبالغوں اور مغالطوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔
ہم نے اکثر ملاؤں سے ایک بات متواتر کے ساتھ سنی ہوگی کہ ہماری ناکامیوں اور تباہی کی وجہ دین سے دوری کا ہے۔ جبکہ معاملات اس کے برعکس ہیں۔ ہر سال کئی لاکھ سے زائد طلباء و طالبات مختلف مدرسوں سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں اور مختلف دینی اجتماعات میں سالانہ پچاس لاکھ سے زائد افراد دینی تربیت سے گزرتے ہیں، اور تو اور اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں تک میں دینی اجتماعات ہوتے رہتے ہیں۔ اسی طرح اسلامی شریعت کی ترویج کے لیے بہت سی تحریکیں ہمیشہ چلتی رہتی ہیں۔
اس صورت حال میں کیا یہ پوچھنا جائز نہیں کہ اس سارے دینی ابھار اور اتھارٹی کے باوجود تمام تر معاملات میں انحطاط کا اضافہ اور بڑھتی ہوئی لاقانونیت کی وجہ کیا ہے؟ کوئی تو وجہ ایسی ہے جس نے جسم کو غذا کے اثر سے محروم رکھا ہے۔
وہ وجہ کیا ہے؟ اس کی نشان دہی اتنی آسان اور سادہ نہیں۔ تاہم یہ کہنا ممکن ہے اگر حالت یہ ہو کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، تو حکیم صاحب کی خدمت میں اتنا عرض کرنا شاید گستاخی نہ ہو کہ دوا کو ذرا پھر دیکھ لیں کوئی ملاوٹ تو نہیں۔ یا یہ کہ اس مرض کی دوا کوئی اور تو نہیں۔ کہیں آپ کسی اور مرض کی دوا اس مرض کے لیے تو نہیں دے رہے جو اس معاشرے کو لگا ہوا ہے۔ یعنی کہیں یہ تو نہیں کہ آپ سمجھتے ہیں کہ اس معاشرے کو دینی تعلیم کی ضرورت ہے اور فکری اختلافات پر پابندیوں کی ضرورت ہے اور حقیقت یہ ہو کہ اسے جدید علوم اور افکار کی ضرورت ہو۔
لازمی نہیں کہ اس کتاب کے تمام نکات سے انسان متفق ہو لیکن ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہمارے معاشرے میں اتنے مدارس اور مذہبی اجتماعات ہونے کے باوجود معاشرے میں کوئی علمی، اخلاقی اور انسانی تبدیلی نظر نہیں آتی، بلکہ معاشرہ دن بہ دن بد سے بدتر ہوتا جا رہا ہے۔ کیوں نہ معاشرے کے ذمہ دار افراد اب کی بار حکیم اور دوا دونوں بدل کر دیکھ لیں۔
کتاب کا اسلوب سادہ مگر جرأت مندانہ ہے۔ کہیں کہیں زبان میں سختی بھی محسوس ہوتی ہے، مگر وہ مصنف کے خلوص اور فکری کڑواہٹ کا اظہار ہے۔ پروفیسر صاحب کی یہ کاوش پاکستانی معاشرے کی فکری مباحث میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔