ٹارچر سیل
تحریر: سنج بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ اجتماعی سزا یا شناخت کی بنیاد پر لوگوں کو غائب کر دینا ایک انسان کے ساتھ دیگر ہزاروں انسانوں سے جڑا ہوا ہوتا ہے ایک فرد کا اپنے ارد گرد بہت سے لوگوں سے اس کا رشتہ قائم ہوتا ہے۔ ایک فرد کو جبری گمشدہ کر دینا ایک فرد کے ساتھ اس کے ارد گرد موجود لوگوں کو ذہنی اور جسمانی طور پر مفلوج کر دینے کے مترادف ہوتا ہے۔ ایک فرد کو اس کے شناخت کی بنیاد پر اس کو زندانوں کی نظر کرنا اور غیر انسانی رویہ اور اذیت دینا اس کو غیر انسانی سلوک اختیار کرنا اس کو اس کی شناخت کی بنیاد پر ٹارچر سیلوں میں اذیت دینا، اس کو ذہنی طور پر مارنا اور جانوروں کے جیسے سزا دینا اور گالیاں دینا کہ اس کے وجود کو اندر سے جھنجھوڑنا کہ اس کو موت کے علاوہ کے کچھ اور یاد نہ آہیں ۔
تشدد violence
طاقت کے استعمال کو کہتے ہیں کہ کسی کو زخمی کیا جا سکتا ہے یا اس کا استحصال ہوتا ہے۔ یورپ اور امریکہ میں مزدوروں پر تشدد کیا جاتا تھا۔ دنیا میں ہر وقت مظلوم پر ظلم اور جبر کیا جاتا ہے تاکہ اس قوم کو غلام بنایا جا سکے اور اس قوم کے لوگوں کو کمتر تصور کر کے ان سے محنت مزدوری کروائی جا سکے۔
ذہنی تشدد
ہمیں تمہارے بارے میں سب کچھ معلوم ہے، تمہارے دوست نے ہمیں سب کچھ بتایا ہے۔ آپ لاپتہ کرنے کے بعد اسے ایسا اذیت دیتے ہو کہ ذہنی طور پر مفلوج ہو جاتا ہے۔
فرانز فینن نے کہا کہ تشدد کرنے والے لوگ نشے کے عادی ہوتے ہیں، تھپڑ مارنا معمولی سی بات ہے۔ ان کی نظر میں فوجی گفتگو بغیر نام کے کرتے ہیں، دوران تفتیش نام لینا ممنوع ہے۔
نفسیاتی تشدد
خاندان، دوستوں، اور اس کے ساتھ کو مارنے کی دھمکی دینا یا قتل یا تناسل کو کاٹنے وغیرہ کی دھمکی دینا، بے عزتی، برہنہ کرنا، پنکھے کے ساتھ باندھنا، واشروم پر پابندی عائد کرنا۔
جسمانی تشدد
راتوں، گھونسوں، ڈنڈوں سے مارنا، جسمانی اعضاء توڑنے اور سگریٹ سے جلانے وغیرہ اس طرح اذیت دینا۔ ساتھ میں ناک کو بند کرنا، ڈنڈوں سے مارنا، گرم پانی ڈالنا، برف کے اوپر کھڑا کرنا، مختلف حربے استعمال کرنا۔ فٹبال بال جاہے، چاروں طرف سے مکوں اور تھوکوں کی بارش کردی جاتی ہے۔ قیدی پر کمبل ڈالا جاتا ہے تاکہ چوٹ بھی ظاہر نہ ہو اور نشے کرنے والے کی شناخت بھی نہ ہو۔ بجلی کی کرنٹ مارنا، بے عزت کرنا وغیرہ۔
امریکہ میں کھیتوں اور باغوں میں کام کرنے والے غلاموں کو لوہے کا یہ ماسک پہنایا جاتا تھا تاکہ وہ کام کے دوران اناج یا پھل کا کوئی دانہ منہ میں نہ ڈالیں اور ایک دوسرے سے بات نہ کریں۔ لوگ ایسے مشقت کے ذریعے معیشتیں قائم کرتے ہیں اور انسانی حقوق کا واویلا کرتے ہیں۔
ایک انسان کو ٹارچر سیلوں میں بند کرنے سے اس کا قومی احساس ختم نہیں کیا جا سکتا۔ پہلی مرتبہ پاکستان میں یہ ٹارچر سیل نہیں، بلکہ صدیوں سے یہ غیر انسانی روایات قائم ہیں۔ ان انسانی ڈھانچوں سے معلوم ہو سکتا ہے کہ ریاست کس قدر لوگوں کو اذیت پہنچانے کے لیے یہ عمل استعمال کر رہی ہے۔ تو ہماری نوجوان نسل جو ان ٹارچر سیلوں میں اذیت برداشت کر رہی ہے وہ ناقابل قبول ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔