برلن: بلوچستان کی ایک شام، خاموشی پر گفتگو” میں بلوچ عوام کی جدوجہد اور ریاستی جبر پر روشنی

6

جرمن دارالحکومت برلن میں بلوچ کارکنوں اور ان کے ساتھیوں نے ایک خصوصی سیشن “بلوچستان کی ایک شام، خاموشی پر گفتگو” میں شرکت کی، جس کا اہتمام کریٹیکل پاکستان کے زیرِ اہتمام کیا گیا۔ اس نشست میں پاکستان میں بلوچ عوام کو درپیش ریاستی جبر اور اختلافی آوازوں کو خاموش کرنے کی پالیسیوں پر تفصیل سے بات کی گئی۔

نشست کا آغاز ایرانی نژاد فلمساز شکوفہ کامیذ کی دستاویزی فلم کی نمائش سے ہوا، جو کراچی کی معروف سماجی کارکن سبین محمود کی زندگی اور ان کے قتل پر مبنی تھی۔ سبین محمود، جو “دی سیکنڈ فلور (T2F)” کی بانی تھیں، 2015 میں اس وقت قتل کر دی گئیں جب انہوں نے “انسائلنسنگ بلوچستان” کے عنوان سے ایک نشست منعقد کی تھی۔ فلم نے ان کی جرات اور المناک موت کو یاد کرتے ہوئے یہ واضح کیا کہ پاکستان میں بلوچ بیانیے کے لیے آواز بلند کرنا کس قدر جان لیوا خطرات کا باعث بنتا ہے۔

فلم کے بعد ایک پینل ڈسکشن ہوا۔ عبداللہ عباس، ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیومن رائٹس کونسل آف بلوچستان، نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان کی جانب سے بلوچستان پر نوآبادیاتی تسلط قائم ہے اور وہاں کے عوام مسلسل انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا تھا:
“بلوچستان میں جبری گمشدگیوں سے لے کر ماورائے عدالت قتل تک، ریاستی جبر کی مشینری نے روزمرہ زندگی کو بقا کی جنگ میں بدل دیا ہے۔”

بلوچ کارکن اور موسیقار فرہاد نے اپنے خطاب میں پاکستان کے ترقی پسند حلقوں کے تضادات پر بات کی۔ انہوں نے کہا کہ کئی حلقے فلسطین، بھارت یا امریکا کے مظالم پر آواز بلند کرتے ہیں، لیکن جب بات پاکستانی ریاست کے ہاتھوں بلوچ عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کی ہو تو خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا:
“یکطرفہ یکجہتی اپنی معنویت کھو دیتی ہے۔ اگر گھریلو جبر پر خاموشی اختیار کی جائے تو بیرونی جبر کے خلاف احتجاج محض کھوکھلا نعرہ رہ جاتا ہے۔”

نشست کا اختتام ایک ثقافتی پروگرام پر ہوا، جس میں فرہاد اور بالاچ بالی نے بلوچی ساز بنجو پر روایتی موسیقی پیش کی۔ اس فنکارانہ مظاہرے نے یہ پیغام دیا کہ دہائیوں کی کوششوں کے باوجود بلوچ ثقافت نہ صرف زندہ ہے بلکہ جلاوطنی کی فضا میں بھی اپنی مزاحمتی شناخت کو منوا رہی ہے۔