انسدادِ دہشتگردی ترمیمی ایکٹ – ٹی بی پی اداریہ

34

انسدادِ دہشتگردی ترمیمی ایکٹ

ٹی بی پی اداریہ

بلوچستان کی متنازعہ حکومت نے اسمبلی میں انسدادِ دہشتگردی ایکٹ 1997 میں ترمیم منظور کی ہے، جس کے تحت ایسے شقیں شامل کی گئی ہیں جو آئینِ پاکستان میں دیے گئے بنیادی انسانی حقوق سے براہِ راست متصادم ہیں۔ اس ترمیم کے بعد بلوچستان میں مخصوص مقدمات خفیہ عدالتی نظام کے ذریعے چلائے جائیں گے۔ اس خصوصی نظام میں ججوں، وکلا، گواہوں اور مقدمے سے جڑے تمام افراد کی شناخت چھپائی جائے گی، گواہوں کو کوڈ اور علامتی نام دیے جائیں گے، سماعت جیلوں یا خفیہ مقامات پر ورچوئل طریقے سے کی جا سکے گی اور آواز بدلنے کی ٹیکنالوجی استعمال ہوگی۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان، وکلا برادری اور بلوچستان کی سیاسی جماعتوں نے اس قانون پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کے مطابق یہ ترمیم آئین میں درج فئیر ٹرائل کے حق کو سلب کرتی ہے۔ خدشہ ہے کہ یہ قانون بھی اسی طرح سیاسی مخالفین اور کارکنوں کے خلاف ہتھیار بنایا جائے گا، جیسے ماضی میں انسدادِ دہشتگردی قوانین کو استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

یہ اقدام بلوچستان میں ریاستی جبر کے خلاف ابھرتی عوامی تحریک کو کچلنے کی ایک اور کڑی ہے۔ مقتدر قوتیں مسلط شدہ حکومت کے ذریعے ایسے قوانین لا رہی ہیں جن کے ذریعے سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کو پابندِ سلاسل رکھنا مزید آسان ہو جائے۔ چھبیسویں آئینی ترمیم کے بعد عدالتیں پہلے ہی انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں ناکام ہیں۔ بلوچستان کی عدالتیں مسلسل ریاستی دباؤ میں پولیس ریمانڈ بڑھا کر بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کو جیلوں میں رکھنے کے عمل کو قانونی جواز فراہم کر رہی ہیں۔

بلوچستان کے جنگ زدہ حالات میں، جہاں سیاسی کارکن پہلے ہی جبری گمشدگیوں اور مقدمات کا شکار ہیں، اس ترمیمی ایکٹ کے بعد ان کے خلاف ریاستی کاروائی مزید شدت اختیار کرے گی۔ یہ قانون دراصل انصاف کے نام پر ناانصافی کو آئینی لبادہ پہنانے کی ایک اور کوشش ہے، جو بلوچستان میں موجودہ سیاسی بحران کو اور گہرا کرے گا۔