امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے بی ایل اے و مجید بریگیڈ پر عالمی پابندی روک دی، پاکستان و چین کو سفارتی دھچکا

385

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ۱۲۶۷ پابندی کمیٹی نے پاکستان اور چین کی وہ مشترکہ درخواست روک دی ہے جس کے ذریعے بلوچ لبریشن آرمی اور اس کی فدائی یونٹ مجید بریگیڈ کو عالمی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے اس تجویز پر تکنیکی بنیادوں پر اعتراض اٹھایا اور مزید شواہد طلب کر لیے، جس کے نتیجے میں اس درخواست پر فوری عمل درآمد رک گیا۔

پاکستان کے مستقل مندوب نے کمیٹی میں دعویٰ کیا تھا کہ بی ایل اے اور مجید بریگیڈ افغانستان میں مبینہ تربیتی مراکز سے کارروائیاں کر رہے ہیں اور پاکستان کے اندر حملوں میں ملوث ہیں۔ ان دلائل کی بنیاد پر پاکستان اور چین چاہتے تھے کہ ان تنظیموں کو ۱۲۶۷ فہرست میں شامل کیا جائے، جو القاعدہ، داعش یا ان کے منسلک گروہوں کے ساتھ تعلق رکھنے والی تنظیموں پر عالمی سطح پر سخت پابندیاں عائد کرتی ہے۔ اس فہرست میں شمولیت کے بعد اثاثے منجمد ہو جاتے ہیں، سفری پابندیاں لگتی ہیں اور اسلحہ فراہم کرنا ممنوع ہو جاتا ہے۔

تاہم کمیٹی کے تین مستقل اراکین امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے واضح کیا کہ پاکستان اور چین نے ابھی تک ایسے ٹھوس شواہد پیش نہیں کیے جو بی ایل اے یا مجید بریگیڈ کو عالمی شدت پسند نیٹ ورکس سے جوڑ سکیں۔ نتیجتاً اس تجویز پر تکنیکی ہولڈ لگا دیا گیا، جس کا مطلب ہے کہ یہ معاملہ کم از کم آئندہ چھ ماہ تک دوبارہ نہیں اٹھے گا۔

یہ پیش رفت پاکستان اور چین کے لیے ایک نمایاں سفارتی دھچکے کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔ دونوں ممالک برسوں سے بلوچ مزاحمتی تنظیموں کو دہشت گرد قرار دلوانے کے لیے بین الاقوامی فورمز پر سرگرم ہیں، مگر اب تک انہیں اقوام متحدہ کی سطح پر کامیابی نہیں ملی۔ مبصرین کے مطابق یہ ناکامی اس حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ بلوچ تحریک کو عالمی سطح پر دہشت گردی کے دائرے میں لانے کی کوششوں کو مزاحمت کا سامنا ہے اور دنیا اسے زیادہ تر ایک سیاسی و تاریخی مسئلہ سمجھ رہی ہے۔

چین کی بڑی سرمایہ کاری پاک چین اقتصادی راہداری اور گوادر میں جاری منصوبوں میں مرکوز ہے، جس پر حملے پہلے بھی ہو چکے ہیں۔ چین کی خواہش تھی کہ اقوام متحدہ کی منظوری کے ذریعے اس مزاحمت کے خلاف سخت تر اقدامات کے لیے بین الاقوامی حمایت حاصل ہو، لیکن اس تازہ فیصلے نے اس کوشش کو موقوف کر دیا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ عالمی سطح پر اس بات کو تقویت دیتا ہے کہ بلوچ مسئلہ محض سکیورٹی یا عسکری دائرہ کار میں نہیں بلکہ سیاسی اور تاریخی پس منظر رکھتا ہے، جسے صرف پابندیوں یا دباؤ سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ بین الاقوامی اداروں کا یہ محتاط رویہ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ کسی بھی تحریک کو دہشت گردی کی فہرست میں شامل کرنے سے پہلے ٹھوس شواہد اور قانونی تقاضے پورے کرنا ناگزیر ہیں۔

یاد رہے کہ امریکہ نے ۸ اگست ۲۰۲۵ کو اپنی ملکی سطح پر بی ایل اے اور مجید بریگیڈ کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا، لیکن بین الاقوامی سطح پر ایسا کرنے کے لیے مختلف اور زیادہ سخت معیار درکار ہیں۔ اس فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان دونوں تنظیموں کو عالمی دہشت گرد نیٹ ورکس سے جوڑنے کے لیے پاکستان اور چین کو ابھی مزید شواہد فراہم کرنے ہوں گے۔

ماہرین کے مطابق یہ واقعہ واضح کرتا ہے کہ بلوچ مسئلہ عالمی سطح پر ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے، جہاں محض الزامات یا سفارتی دباؤ کافی نہیں بلکہ تاریخی حقائق اور قانونی بنیادیں زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔ دوسری جانب یہ پیش رفت بلوچ تحریک کے لیے یہ پیغام بھی رکھتی ہے کہ دنیا اس مسئلے کو یک رُخی سکیورٹی عینک سے نہیں دیکھ رہی بلکہ اس کے وسیع تر سیاسی اور انسانی پہلوؤں کو سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے۔