پاکستانی یومِ آزادی کے موقع پر سیکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر بلوچستان حکومت نے صوبے بھر میں سخت اقدامات نافذ کر دیے ہیں، جن میں رات کے اوقات میں پبلک ٹرانسپورٹ پر پابندی، ٹرین سروس کی معطلی، موبائل انٹرنیٹ کا بلیک آؤٹ، اور اہم شہروں کے داخلی و خارجی راستوں کی بندش شامل ہے۔
ان اقدامات کے باعث صوبے کے مختلف حصوں میں کرفیو جیسا ماحول پیدا ہو گیا ہے اور عوام شدید مشکلات کا شکار ہیں۔
ٹرانسپورٹ پر پابندیاں
صوبائی محکمہ ٹرانسپورٹ کے مطابق شام 5 بجے سے صبح 5 بجے تک بلوچستان بھر میں پبلک ٹرانسپورٹ چلانے پر پابندی عائد ہے، حکام نے خلاف ورزی کرنے والی کمپنیوں کے روٹ پرمٹ منسوخ کرنے کی وارننگ دی ہے۔
یہ پابندی قومی شاہراہوں سمیت تمام شہروں اور اضلاع میں نافذ ہے۔
بلوچستان میں روزانہ ہزاروں افراد پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے کوئٹہ کراچی، مکران سمیت پاکستان کے دیگر شہروں کا سفر کرتے ہیں ان پابندیوں کے باعث یہ لوگ محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔
صوبے میں صحت کی غیر معیاری سہولیات کے باعث کراچی جانے والے مریضوں کو بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے، شہریوں کی جانب سے ٹرانسپورٹ کی بندش کے خلاف احتجاجی دھرنے دیے جارہے ہیں۔
دوسری جانب کوئٹہ سے بین الصوبائی ٹرین سروس مسلسل چوتھے روز بھی معطل ہے اور پاکستان ریلویز کے مطابق یہ معطلی 14 اگست تک جاری رہے گی۔
ریلوے حکام کے مطابق یہ فیصلہ مستونگ کے علاقے دشت میں جعفر ایکسپریس پر بم حملے کے بعد کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ مارچ میں اسی ٹرین پر بلوچ آزادی پسند تنظیم بی ایل اے کے ہائی جیکنگ واقعے میں درجنوں پاکستانی فورسز کے اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔
رپورٹس کے مطابق زمینی سفر کی بندش کے باعث شہری فضائی سفر پر انحصار کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں جس سے ہوائی کرایوں میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اسلام آباد کا کرایہ، جو عام دنوں میں 18 سے 20 ہزار روپے تھا، اب 50 ہزار روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ فلائی جناح روزانہ، پی آئی اے ہفتے میں 3 سے 4 مرتبہ، اور سیرین ایئر ہفتہ وار صرف ایک پرواز چلا رہی ہے۔
موبائل انٹرنیٹ کی معطلی
6 اگست سے صوبے کے تمام 36 اضلاع میں موبائل انٹرنیٹ (3G اور 4G) سروسز مکمل طور پر بند ہیں اور یہ معطلی 31 اگست تک جاری رہنے کا امکان ہے۔
یاد رہے کہ بلوچستان پہلے ہی ملک کا سب سے پسماندہ آن لائن انفراسٹرکچر رکھنے والا صوبہ ہے جہاں 60 فیصد علاقے انٹرنیٹ سے محروم ہیں صوبے کے تقریباً ڈیڑھ کروڑ افراد میں سے نصف سے زائد صرف موبائل ڈیٹا پر انحصار کرتے ہیں جبکہ لینڈ لائن انٹرنیٹ صارفین کی تعداد صرف 70 ہزار ہے۔
اس دوران انٹرنیٹ بندش نے فری لانسرز، آن لائن کاروبار کرنے والی خواتین، فوڈ ڈیلیوری رائیڈرز، طلبہ، اور تاجروں کو شدید متاثر کیا ہے موبائل بینکنگ اور آن لائن پیمنٹ سسٹمز معطل ہیں جبکہ ٹیلی میڈیسن جیسی سہولیات بھی رک گئی ہیں۔
انسانی حقوق کمیشن بلوچستان نے ان اقدامات کو شہری آزادیوں اور بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے ان کی شدید مذمت کی ہے۔
اسی طرح بلوچستان حکومت کے احکامات پر ضلع مستونگ میں بینکنگ سروسز بھی معطل کردی گئی ہیں جس سے شہری شدید پریشانی میں مبتلا ہیں۔
گوادر شہر مکمل بند، شہری محصور
گوادر جیسے حساس شہر میں 14 اگست کی تقریبات اور سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر گزشتہ تین روز سے داخلی و خارجی راستے بند ہیں سڑکیں سنسان ہیں، ٹریفک نہ ہونے کے برابر ہے اور شہری گھروں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔
حکومتی اقدامات کے باوجود حملے جاری
ٹرانسپورٹ، انٹرنیٹ، اور بینکنگ سروسز کی معطلی کے باوجود بلوچستان کے مختلف علاقوں میں مسلح حملے جاری ہیں ان حملوں میں پاکستانی فورسز، پولیس، مقامی مسلح گروہ (ڈیتھ اسکواڈ)، مواصلاتی نظام، اور ریلوے سروسز کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
گزشتہ روز ضلع واشک کے علاقے بسیمہ میں ایک حملے میں پاکستان فوج کے ایک کیپٹن سمیت نو اہلکار ہلاک اور چھ زخمی ہوئے تھے، جبکہ کوئٹہ میں پولیس اور سرکاری دفاتر کو بم حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔
بلوچستان کے علاقے زیارت سے مسلح افراد نے ڈپٹی کمشنر کو بیٹے سمیت اغوا کر لیا، جبکہ زہری میں آپریشن میں مصروف پاکستانی فورسز کو بھی متعدد حملوں کا سامنا رہا۔
عوام اور سول سوسائٹی کی تنقید
شہریوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ حکومت سیکیورٹی فراہم کرنے کے بجائے بنیادی ضروریات پر پابندیاں لگا کر عوام کو سزا دے رہی ہے ان کے مطابق یہ اقدامات تحفظ کے بجائے شہریوں کو محصور اور مفلوج کر رہے ہیں۔