‏ماہ جبین کی چیخیں اور ریاستی عقوبت خانے – سمیعہ رند

2

‏ماہ جبین کی چیخیں اور ریاستی عقوبت خانے

تحریر: سمیعہ رند

دی بلوچستان پوسٹ

پاکستان کے بلوچ دشمن اداروں نے ٹارچر سیلز کے لیے ایک اور بلوچ لڑکی “ماہ جبین” کا اضافہ کردیا ۔ جسے 29 مئی کی رات کے تین بجے کے قریب نرسنگ ہاسٹل سول ہسپتال کوئٹہ سے سی ٹی ڈی اور دیگر خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے گرفتار کرکے لاپتہ کردیا۔

اس واقعے سے چھ دن پہلے ماہ جبین کے بھائی یونس بلوچ کو اسکے آبائی گاؤں بسیمہ سے اٹھا کر لاپتہ کردیا گیا۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے یونس اور ماہ جبین بلوچ سے پہلے بھی اس خاندان کے کہیں افراد عقوبت خانوں میں بلوچ ہونے کی سزا میں شہید کردئیے گئے ہیں۔ اس خاندان کو کبھی سکھ کا سانس لینے نہیں دیا گیا۔ ہر ایک دو سال میں انہیں ان کے کسی پیارے کی مسخ شدہ لاش تھما دی جاتی ہے۔ میری دعا ہے ماہ جبین اور یونس بلوچ کے بارے میں وہ پرانی طرز کے سفاکانہ جبر نا ہو۔ دونوں بہن بھائی زندہ سلامت بازیاب ہوں۔

ماہ جبین کے خاندان پر ریاستی ڈھائے جانے والی جبر پر کتابیں لکھی جاسکتی ہیں لیکن اس تحریر کا مقصد صرف ماہ جبین کی غیر قانونی گرفتاری، ٹارچر سیلز میں اس کی حالت کو بیان کرنا ہے۔

جب ماہ جبین کو اٹھانے آئے تھے ان کے چہرے ڈھکے ہوئے تھے۔ بڑے قد کے تین درجن کے قریب مرد تھے جن کے ہاتھوں میں وہ بندوقیں تھیں گویا وہ کسی بڑے دہشتگرد کے ٹھکانے پر حملہ آور ہوئے ہوں۔ وہ جیسے ہی داخل ہوئے ماہ جبین کے دوپٹے کو آنکھوں پر اس قدر سختی سے باندھا گیا وہ تڑپ کر چیخ رہی تھی۔ وہ چیخ اس قدر درد سے بھری تھی سننے والے باضمیر شخص کو آدھ لمحے فالج کا دورا پڑھ جائے۔ زبان سے نکلی وہ آخری چیخ تھی۔ پھر اس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر جب بازوؤں اور کمر سے پکڑ کر اٹھایا جانے لگا تب تک اس کی زبان سن ہوگئی تھی۔ شاید ان لمحوں میں اس کی چیخ زبان سے نہیں دل سے نکل رہی تھی۔ اس کی آخری چیخ سے میں بیہوش ہوگئی۔ میرے ہوش میں آنے سے پہلے اسے لے جایا جا چکا تھا۔

ان لمحوں میں ماہ جبین صرف زندہ رہنے کی آزادی سے محروم نہیں ہو رہی تھی بلکہ اس کی شناخت، اس کی حرمت، اس کی عزت نفس اور اس کی خودی سب کچھ سے محروم ہونے جارہی تھی۔

ماہ جبین جس زندان میں بند ہے اس کا نقشہ اس کے ہتھیلی پر اب تک بن چکی ہے۔ ان چوڑیوں کی شوقین ہاتھوں پر اب زنجیریں بندھی ہیں۔ میں زنجیروں کی آوازیں اس کے روح کو پگھلا چکی ہیں۔ وہ سہمی ہوئی ڈری ہوئی بیٹھی ہوگی تاکہ زنجیروں سے آواز نا آئے۔

ان دو مہینے میں اس نے کتنی دفعہ عقوبت خانے میں ہونے کو ایک خواب سمجھ کر نیند سے جاگنے کی کوشش میں خود کو چوٹ پہنچانے کی کوشش کی ہوگی۔

جاری ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔