دکانیں کھولنے پر فورسز نے متعدد شہریوں کو گرفتار کرلیا، کرفیو کے باعث اشیائے ضروریہ کی قلت
بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے ناصر آباد میں گذشتہ چار روز سے کرفیو کا سما بازار مکمل طور پر بند اور پاکستانی فورسز نے شہریوں کو دکانیں کھولنے سے باز رکھا ہے، جبکہ خلاف ورزی کرنے پر متعدد دکانداروں کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔
مقامی رہائشیوں کے مطابق علاقے میں کرفیو کی وجہ سے لوگ گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں جبکہ بازار کی بندش کے باعث اشیائے ضروریہ کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے۔
فورسز کی جانب سے بازار کھولنے پر پابندی کے خلاف آل پارٹیز کیچ نے اپنے ایک جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ 12 اگست سے ناصر آباد بازار مکمل طور پر بند ہے اور علاقے میں غیر اعلانیہ کرفیو نافذ ہے جو کہ قابل مذمت اقدام ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اس وقت ناصر آباد میں کرفیو جیسا ماحول ہے لوگ گھروں میں محصور ہیں کھانے پینے کی اشیاء ختم ہوچکی ہیں اور عوام کو فوری طور پر اس اذیت ناک صورتحال سے نکالا جانا چاہیے۔
آل پارٹیز کیچ نے اپنے بیان میں اس اقدام کو عوام دشمن قرار دیا اور کہا کہ اس طرح کے اقدامات سے عام شہریوں کو ناکردہ گناہوں کی سزا دی جارہی ہے۔
سیاسی تنظیموں نے مزید کہا کہ گزشتہ دنوں کچھ دکانداروں نے دکانیں کھولنے کی کوشش کی جنہیں گرفتار کرلیا گیا اگرچہ بعد میں انہیں رہا کر دیا گیا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے عوام کو بلاوجہ تنگ کیا جا رہا ہے۔
بیان میں ڈپٹی کمشنر کیچ بشیر احمد بڑیچ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ فوری طور پر اس سنگین مسئلے کا نوٹس لیں ناصر آباد کے عوام کو تحفظ فراہم کریں اور علاقے میں روزمرہ کے معمولاتِ زندگی بحال کریں۔
واضح رہے کہ رواں ماہ سیکیورٹی کی مخدوش صورتحال کے باعث بلوچستان کے مختلف علاقوں میں سخت پابندیاں عائد کرتے ہوئے شہریوں کی نقل و حرکت محدود کر دی گئی ہے جبکہ بلوچستان بھر میں دفعہ 144 نافذ ہے اور انٹرنیٹ سروس بھی معطل کردی گئی ہے۔
اس سے قبل گوادر میں بھی شہریوں نے سیکیورٹی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ 14 اگست کی آمد کے موقع پر فورسز نے شہر کو سیل کر دیا ہے اور شہر کے داخلی و خارجی راستے بند کردیے گئے ہیں۔
حالیہ اقدامات کے باعث بلوچستان کے شہری شدید مشکلات کا شکار ہیں تاہم حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ اقدامات اگست کے مہینے میں بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیموں کے ممکنہ حملوں کی روک تھام کے لیے کیے جارہے ہیں۔
ادھر بلوچستان کی سیاسی جماعتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے صوبے بھر میں انٹرنیٹ اور دیگر سہولیات کی فوری بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔