کوئٹہ بیٹے کے انصاف کے لیے دھرنا دینے والی خاتون کو پولیس نے کمسن بیٹی سمیت گرفتار کرلیا۔
کوئٹہفورسز کی فائرنگ سے جانبحق ہونے والے نوجوان احسان شاہ کی والدہ عارفہ شاہ، جنہیں ابتدائی طور پر جبری لاپتہ قرار دیا گیا تھا، واپس آ چکی ہیں اور انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ انہیں کوئٹہ پولیس نے گرفتار کیا اور حراست کے دوران ہراساں کیا گیا۔
عارفہ شاہ رواں سال جون میں مستونگ غنجہ ڈوری کے مقام پر پاکستانی فورسز کے اہلکاروں کے ہاتھوں قتل کیے گئے اپنے بیٹے کے لیے انصاف مانگنے کے لیے گزشتہ دو ہفتوں سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے دھرنا دیے بیٹھی تھیں۔
گذشتہ روز انھیں دھرنے گاہ سے انکی کمسن بچی کے ہمراہ پولیس نے تحویل میں لیا انکی غیر موجودگی پر انکے قریبی رشتہ داروں نے ان کی جبری گمشدگی کا خدشہ ظاہر کیا تھا، تاہم اب خود عارفہ شاہ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ انہیں پولیس نے تحویل میں لیا تھا اور دورانِ حراست ذہنی دباؤ، دھمکیوں اور ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔
عارفہ شاہ نے بازیابی کے بعد اپنے ایک ویڈیو بیان میں بتایا کہ مجھے اس لیے گرفتار کیا گیا کیونکہ میں اپنے بیٹے کے قاتلوں کو سزا دلوانا چاہتی ہوں حراست میں مجھ سے بار بار کہا گیا کہ دھرنا ختم کرو، خاموش رہو اور میڈیا سے بات نہ کرو۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ گذشتہ کئی روز سے کوئٹہ پولیس سپریڈنٹ انھیں احتجاج ختم نہ کرنے کی پاداش میں گرفتار کرنے اور لاپتہ کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پر امن احتجاج کو دبانے کے لیے ریاستی طاقت کا استعمال ناقابل قبول ہے، تنظیم کا کہنا ہے کہ عارفہ شاہ کو انصاف کے بجائے ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔
تنظیم نے انسانی حقوق کی مقامی و بین الاقوامی تنظیموں، صحافیوں، وکلا اور سول سوسائٹی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ عارفہ شاہ کو انصاف دلوانے اور ان کے ساتھ ہونے والے سلوک پر سوال اٹھائیں۔