انتظامیہ کی جانب سے احتجاجی دھرنے میں موجود مقتول احسان شاہ کی والدہ کو گرفتاری کی دھمکی دی گئی۔
مستونگ میں پاکستانی فورسز کی فائرنگ سے جانبحق 17 سالہ نوجوان احسان شاہ کی والدہ کا کوئٹہ پریس کلب کے سامنے دھرنا آج 9ویں روز میں داخل ہو گیا ہے۔
احسان شاہ کی والدہ واقعے میں ملوث ایف سی اہلکاروں کی عدم گرفتاری کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔
سترہ سالہ احسان شاہ کو رواں سال 3 جون کو کوئٹہ کے علاقے غنجہ ڈوری میں ایف سی اہلکاروں نے فائرنگ کا نشانہ بنایا تھا، جس کے نتیجے میں وہ جانبحق جبکہ ان کا ساتھی شعیب زخمی ہوا تھا۔
لواحقین کا الزام ہے کہ مستونگ ایف سی کے ایک افسر نے احسان شاہ کو علاقے میں مخبری سے انکار کرنے پر فائرنگ کرکے قتل کیا۔
واقعے کا مقدمہ (ایف آئی آر) فورسز اہلکاروں کے خلاف درج کیا گیا تاہم کئی ماہ گزر جانے کے باوجود کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔
احسان شاہ کی والدہ کا کہنا ہے کہ آج دھرنے کے دوران مقامی ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) نے آکر ان کے پوسٹرز پھاڑ دیے اور احتجاج ختم کرنے کی دھمکی دی۔
ان کے مطابق ڈی ایس پی نے کہا کہ اگر دھرنا جاری رکھا گیا تو انہیں گرفتار کرلیا جائے گا۔
واضح رہے کہ احسان شاہ قتل کیس میں ایف آئی آر کے اندراج کے دوران بھی لواحقین کو شدید دباؤ کا سامنا رہا، پولیس نے فورسز اہلکاروں کے دباؤ میں آکر مقدمہ درج کرنے سے انکار کر دیا تھا تاہم عدالتی حکم پر نامعلوم اہلکاروں کو ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا۔
احسان شاہ کی والدہ نے بلوچ سیاسی تنظیموں اور انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس ناانصافی کے خلاف ان کی آواز بنیں اور کوئٹہ میں جاری دھرنے میں شامل ہو کر انصاف کے حصول میں ان کا ساتھ دیں۔