بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ اور کراچی میں جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج جاری ۔
کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے قائم احتجاجی کیمپ آج 5921 ویں روز جاری رہا۔
اس موقع پر مختلف مکاتب فکر کے لوگوں نے آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے بڑھتے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ جبری گمشدگیوں کے سلسلے کو بند کرکے جبری لاپتہ افراد کو منظر عام پر لایا جائے ۔
جبکہ سندھ کے مرکزی شہر کراچی سے جبری طور پر لاپتہ ہونے والے نوجوانوں زاہد علی بلوچ اور سرفراز بلوچ کی بازیابی کے لیے احتجاجی کیمپ کراچی پریس کلب کے باہر 21 ویں روز بھی جاری رہا۔
مظاہرین نے ایک بار پھر مطالبہ کیا کہ ان کے پیاروں کو فوری طور پر بازیاب کر کے عدالت کے سامنے پیش کیا جائے۔
اس موقع پر لاپتہ سرفراز بلوچ کی والدہ بی بی گلشن بلوچ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے بیٹے کو 26 فروری 2025 کو برانی اسپتال کے باہر سادہ لباس اہلکاروں نے اغوا کیا تھا۔ ان کے مطابق سرفراز بلوچ اپنے بیمار ماموں کی تیمارداری کے لیے اسپتال آئے تھے اور کھانا لینے کے لیے باہر نکلے ہی تھے کہ چند افراد نے انہیں زبردستی گاڑی میں ڈال کر لاپتہ کردیا۔ اہلخانہ کا کہنا ہے کہ کئی ماہ گزر جانے کے باوجود سرفراز کا کوئی سراغ نہیں ملا اور نہ ہی انہیں کسی عدالت میں پیش کیا گیا ہے۔اسی طرح لاپتہ زاہد بلوچ کے والد حمید بلوچ نے بتایا کہ ان کے بیٹے کو 17 جولائی 2025 کو کراچی کے علاقے گولیمار سے سیکیورٹی اداروں کے اہلکار زبردستی اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ ان کا احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک زاہد علی بلوچ اور سرفراز بلوچ کو بازیاب نہیں کرا لیا جاتا۔
خیال رہے کہ زاہد بلوچ کا تعلق کلری لیاری سے ہے جبکہ سرفراز بلوچ ماری پور سنگھور پاڑہ کے رہائشی ہیں۔ جنہیں پاکستانی فورسز نے حراست میں لے کر لاپتہ کردیا ہے ۔