کوئٹہ، اسلام آباد، کراچی: بلوچ خاندانوں کا جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج جاری

23

بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ سمیت اسلام آباد اور کراچی میں جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج جاری ۔

‏تفصیلات کے مطابق جبری گمشدگیوں کے خلاف وی بی ایم پی کے قائم احتجاجی کیمپ کو کوئٹہ پریس کلب کے سامنے 5922 دن مکمل ہوگئے۔ جبری لاپتہ محمود علی لانگو کی والدہ نے احتجاج میں حصہ لیا، انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ انہیں ان کے بیٹے کے حوالے سے معلومات فراہم کیا جائے۔

دوسری جانب اسلام آباد میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے اسیر رہنماؤں کی رہائی اور جبری گمشدگیوں کے خلاف دھرنا 42ویں روز بھی جاری۔

چھ ہفتوں سے زائد عرصے سے جاری اس دھرنے میں خواتین، بچے، بزرگ اور نوجوان شامل ہیں جو شدید گرمی، طوفانی بارشوں اور حکام کی جانب سے عائد کردہ رکاوٹوں کے باوجود کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ اپنے پیاروں کی بازیابی، اسیر رہنماؤں کی رہائی اور بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خاتمے تک اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔

علاوہ ازیں کراچی میں جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی کیمپ کراچی پریس کلب کے باہر مسلسل جاری ہے، جو آج 22 ویں روز میں داخل ہو گیا ہے۔ لاپتا افراد کے لواحقین کا کہنا ہے کہ ان کے پیاروں کو گھروں سے اٹھا کر جبری طور پر لاپتا کیا گیا اور تاحال ان کا کوئی سراغ نہیں ملا۔

مظاہرین نے حکومت اور ریاستی اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ نوجوانوں کو فوری طور پر بازیاب کر کے عدالتوں میں پیش کیا جائے تاکہ اگر ان پر کوئی الزام ہے تو وہ عدالتی عمل کے ذریعے سامنے آ سکے۔

لاپتا زاہد بلوچ کے والد حمید بلوچ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بیٹے کی گمشدگی نے پورے خاندان کو ذہنی کرب میں مبتلا کر دیا ہے۔ ان کے مطابق اگر زاہد بلوچ پر کوئی الزام ہے تو عدالت میں پیش کر کے قانون کے مطابق کارروائی کی جائے، لیکن بغیر ثبوت کے لاپتا کرنا آئین و قانون کی خلاف ورزی ہے۔

اسی طرح، لاپتا سرفراز بلوچ کی والدہ بی بی گلشن بلوچ نے کہا کہ ان کا بیٹا گھر کا واحد کفیل تھا اور اس کی گمشدگی کے بعد پورا خاندان شدید معاشی بحران کا شکار ہو چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “ہمارے بیٹے بے گناہ ہیں، ہم انصاف چاہتے ہیں اور اپنے بچوں کی واپسی کا مطالبہ کرتے ہیں۔”

مزید برآں، ماری پور کے علاقے سنگھور پاڑہ سے تعلق رکھنے والی بزرگ خاتون اماں سبزی بلوچ نے اپنے بیان میں کہا کہ ان کے دو بیٹے، شیراز اور سیلان، کو 23 مئی 2025 کو مبینہ طور پر کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں نے گھر پر چھاپہ مار کر حراست میں لیا تھا، جس کے بعد سے وہ لاپتا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دونوں بیٹے بے گناہ ہیں اور ان کی جبری گمشدگی کے باعث پورا خاندان مشکلات میں ہے۔ اماں سبزی کے مطابق ان کا بڑا بیٹا شیراز شادی شدہ ہے جبکہ اس کی اہلیہ امید سے ہیں، اور گھر میں کمانے والا کوئی نہیں بچا۔

مظاہرین نے ایک بار پھر حکومت سے اپیل کی کہ لاپتا افراد کو فوری طور پر عدالتوں میں پیش کر کے انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں، بصورت دیگر احتجاجی دھرنا مزید وسعت اختیار کر سکتا ہے۔