کماش بشیر زیب : بلوچ قوم کے شعور کا فلسفہ
تحریر: گزین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ کوئی بھی قومی یا انقلابی تحریک محض کسی ایک فرد کی ذات پر انحصار نہیں کرتی۔ تحریکیں نظریات پر چلتی ہیں، اصولوں پر قائم ہوتی ہیں، اور اجتماعی شعور سے آگے بڑھتی ہیں۔ مگر کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں جو اپنے علم، قربانی، فہم و فراست، اور مزاحمت کے ذریعے ایک نظریے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ بلوچ قومی تحریک میں بشیر زیب ایسا ہی ایک نام ہے جو اب ایک فرد نہیں، بلکہ ایک مکمل فلسفہ ہے۔
ہر تحریک اپنے اندر ایک تسلسل رکھتی ہے۔ وہ مختلف ادوار، مختلف قیادتوں اور مختلف حالات سے گزرتی ہے۔ کوئی بھی سنجیدہ اور باشعور قوم کسی ایک شخصیت پر اپنی پوری تحریک کو منحصر نہیں رکھتی۔ مگر تحریک میں شامل بعض افراد وقت کے ساتھ ساتھ اس تحریک کی علامت بن جاتے ہیں۔ وہ تحریک کے نظریاتی رخ کی وضاحت کرتے ہیں، اس کی فکری بنیاد کو پختہ کرتے ہیں، اور اپنے عمل سے ایسی مثال قائم کرتے ہیں جو صدیوں تک مشعل راہ بنتی ہے۔
بشیر زیب صرف ایک نام نہیں، بلکہ ایک فکری تحریک، ایک مزاحمتی علامت، اور ایک ایسے فلسفے کا استعارہ ہے جو بلوچ قوم کے دکھ، درد، شناخت، اور جدوجہد کی عکاسی کرتا ہے۔ وہ ایک ایسا نظریہ ہے جو انسان کو اپنے وجود، اپنی قوم، اپنی تاریخ، اور اپنے مقصد سے روشناس کراتا ہے۔
“بشیر زیب ایک فلسفہ ہے” — یہ جملہ محض تعریفی نہیں بلکہ ایک فکری دروازہ ہے جس کے اندر داخل ہو کر انسان خود کو تلاش کرتا ہے۔ اس فلسفے کی بنیاد خود شناسی ہے۔ جب ایک فرد اپنے آپ کو جانتا ہے، اپنی ذات، اپنی سوچ، اپنی جڑوں سے واقف ہوتا ہے، تو وہ ایک بڑے مقصد، یعنی قومی شعور، کی طرف قدم بڑھاتا ہے۔
بلوچ قوم کی موجودہ صورت حال، استحصال، شناخت کی تلاش، اور حق خودارادیت کی جدوجہد، بشیر زیب کے فکر کا مرکز ہے۔ ان کے خیالات اور تحریریں ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ قومی بیداری، اتفاق، اور قربانی کے بغیر کوئی قوم آزادی یا خودمختاری حاصل نہیں کر سکتی۔
بشیر زیب کا فلسفہ بلوچ معاشرے کے تضادات، طبقاتی فرق، اور نوآبادیاتی ورثے کی نشاندہی کرتا ہے۔ ان کے نظریات، حالات کی سچی اور بے رحم عکاسی ہیں۔ وہ ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ ہم اپنے گرد و نواح کو غور سے دیکھیں — کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟ کیا ہماری شناخت زندہ ہے؟ کیا ہماری سرزمین پر ہمارا اختیار ہے؟
یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات ہمیں بے چین کرتے ہیں اور اسی بے چینی میں بیداری جنم لیتی ہے۔
بشیر زیب کا فلسفہ ہمیں ایک واضح راستہ دکھاتا ہے — قومی مقصد کی پہچان۔ یہ فلسفہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمارے پاس ایک اجتماعی مقصد ہونا چاہیے، جو ذاتی مفاد سے بالاتر ہو۔ یہ مقصد صرف آزادی نہیں، بلکہ ایک باوقار، خوددار، اور باخبر قوم کی تشکیل ہے۔
ہزاروں سال پرانی بلوچ تہذیب، تاریخ، اور ثقافت آج خطرے میں ہے۔ بشیر زیب کی فکر ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اگر ہم نے اپنے وجود کو نہ پہچانا، اگر ہم نے اپنی زبان، ثقافت، اور قومی تشخص کی حفاظت نہ کی، تو ہم مٹ جائیں گے۔ ان کا فلسفہ ہمیں اپنے ہونے کا احساس دلاتا ہے — ایک ایسی پہچان جو ہمیں فخر دیتی ہے اور حوصلہ بھی۔
بشیر زیب کا فلسفہ دراصل بلوچ قوم کے ہر فرد کے دل میں جلتی ہوئی وہ چنگاری ہے جو شعلہ بننے کی منتظر ہے۔ یہ فلسفہ شعور، مزاحمت، خودی، اور قربانی کا پیغام ہے۔ جو بھی اس فلسفے کو سمجھے، وہ صرف اپنے آپ کو نہیں، بلکہ پوری قوم کو سمجھ لیتا ہے۔
بشیر زیب ایک فرد نہیں، ایک سوچ ہے۔ ایک ایسی سوچ جو زندہ قوموں کی پہچان ہوتی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔