کراچی کے علاقے لیاری سے تعلق رکھنے والے 25 سالہ طالبعلم زاہد علی کی جبری گمشدگی کے خلاف کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ آج دوسرے روز بھی جاری رہا۔
زاہد علی کو 17 جولائی 2025 کو پاکستان فورسز نے گرفتار کرنے کے بعد لاپتہ کردیا تھا۔
لواحقین کے مطابق زاہد علی کراچی یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے شعبے کا طالبعلم ہے اور جز وقتی رکشہ چلا کر نہ صرف اپنی تعلیم کے اخراجات بلکہ گھر کی مالی ضروریات بھی پوری کرتا تھا ان کے والد عبدالحمید ایک پرانے ہیپاٹائٹس کے مریض ہیں اور اپنے بیٹے کی آمدنی پر انحصار کرتے تھے۔
زاہد کی جبری گمشدگی نے ان کے اہلِ خانہ کو شدید صدمے میں مبتلا کر دیا ہے، جب کہ لیاری کے تعلیمی حلقوں میں بھی تشویش کی فضا ہے، زاہد کی فوری بازیابی کے مطالبے کے ساتھ ان کے اہلِ خانہ اور سماجی کارکنان نے کراچی پریس کلب کے باہر احتجاجی کیمپ لگا رکھا ہے جو آج مسلسل دوسرے روز بھی جاری رہا۔
آج ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ایک وفد نے احتجاجی کیمپ کا دورہ کیا اور متاثرہ خاندان سے اظہارِ یکجہتی کیا، وفد میں قاضی خضر، ڈاکٹر توصیف احمد، سعدیہ بلوچ، محمد ثاقب، علی اوسَط، ڈاکٹر سعید عثمانی سمیت دیگر انسانی حقوق کے کارکن شامل تھے۔
وفد نے حکام سے مطالبہ کیا کہ زاہد علی کو فوری طور پر عدالت میں پیش کیا جائے یا رہا کیا جائے۔
ہیومن رائٹس کمیشن نے کہا کہ جبری گمشدگیاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہیں اور ریاستی اداروں کو اس غیرقانونی طرزِ عمل کا خاتمہ کرنا چاہیے۔