چیئرمین فتح : پہاڑوں کا شیر اور مزاحمت کی دھاڑ – اشنام بلوچ

208

چیئرمین فتح : پہاڑوں کا شیر اور مزاحمت کی دھاڑ

تحریر: اشنام بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

وہ صرف ایک جنگجو نہ تھا، وہ مزاحمت کا فلسفہ تھا، بارود میں لپٹا ہوا خواب، جو آزادی کے لیے جیا اور مر گیا۔ ہر قوم کی تاریخ میں کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو محض افراد نہیں ہوتے، نظریات بن جاتے ہیں۔ وہ تاریخ کے صفحے پر نام نہیں، مزاحمت کی آگ ہوتے ہیں۔ ان کی بندوقوں کی گرج صرف گولیوں کی آواز نہیں، غلامی کے خلاف اعلان بغاوت ہوتی ہے۔ شہید چیئرمین فتح قمبرانی بھی ایسا ہی ایک کردار تھا۔ ایک انقلابی، ایک سپاہی، ایک فلسفہ، جو نوآبادیاتی زنجیروں کو توڑنے کے لیے جیتا رہا، اور پھر موت کو گلے لگا کر امر ہو گیا۔

شہید فتح قمبرانی بلوچ قومی مزاحمت کا وہ درخشاں ستارہ ہے، جس نے اپنے بہادری، قربانی، اور جنگی مہارتوں سے بلوچ قومی تحریک آزادی کی تاریخ کو نئے باب عطا کیے۔ وہ صرف ایک جنگجو نہیں، ایک مکمل اسکول آف وار تھا، اس نے بلوچ گل زمین کے پہاڑوں کا اپنا مسکن بنایا، نوآبادکار دشمن کو بندوق کی زبان  سے سمجاتا تھا، اور اسکی کی صفوں میں لرزہ طاری کرکے انہیں بکھیرتا تھا۔اس کی ہر حکمتِ عملی ایک تربیتی باب تھی، اور ہر لڑائی ایک تدریسی مثال۔ وہ نوآبادیاتی قوت کے مقابل ایک پوری جنگی سوچ تھا، جس نے پہاڑوں میں جنم لیا، اور ہر معرکے میں مزید پختہ ہوا۔

فتح قمبرانی سات برس قبل اُس وقت شہید ہوا جب وہ اور اس کے ساتھی ایک مشن کی انجام دہی کے بعد طویل سفر سے تھکن زدہ ہوکر گونی پرہ کے مقام پر سارو کے پہاڑ کے اوٹ میں ایک سائے میں مختصر آرام کی غرض سے رکے تھے۔ دشمن کو مخبروں کے ذریعے اطلاع ملی، اور وہ اچانک ان پر حملہ آور ہوا۔ وہ دشمن جسے اپنی تعداد اور ہتھیاروں پر غرور تھا، سمجھ بیٹھا کہ وہ فتح کو گھیر تسخیر کرچکا ہے۔ مگر فتح صرف نام نہیں، ایک عمل کا اعلان تھا۔

وہ بجلی کی رفتار سے اپنے بندوق تک پہنچا، جو تھوڑے فاصلے پر رکھی تھی۔ ایک ہی میگزین سے اس نے دشمن کو اُس وقت تک روکے رکھا، جب تک اس کے ساتھی محفوظ نہ نکل گئے۔ وہ اکیلا مگر ثابت قدمی سے  لڑتا رہا، یہاں تک کہ گولیاں ختم ہوگئیں۔ اور پھر، اس نے آخری گولی اپنے لئے بچا رکھی جسے اپنے سر میں اتاری تا کہ دشمن کے قید کا ناپاک سایہ بھی اس پر نہ پڑ سکے۔ یوں اس نے فلسفہ امیر جان کو عملی شکل دی یہ شکست نہیں، خود اختیار موت تھی؛ ایک بغاوت جسے جسم نے انجام دیا، مگر روح نے سرخرو کیا۔

فتح کے بعد، فتح سکواڈ وجود میں آیا۔ وہی سکواڈ جو اب بلوچ گلزمیں کے پہاڑوں، میدانوں، اور ہر محاذ پر قابض دشمن کے وجود کو چیرتا ہے۔ ہر گولی، ہر دھماکہ، ہر حملہ، شہید فتح کی روح کا تسلسل ہے۔

‘بی ایل ا ے’ نے شہید چیئرمین فتح قمبرانی کی عظیم قربانی کے اعتراف میں ‘فتح اسکواڈ’ کے نام سے ایک جنگی یونٹ تشکیل دیا جو آج بھی دشمن کے لیے خوف کی علامت ہے۔ یہ یونٹ ہر محاذ پر بہادری، مہارت، اور انقلابی ضربوں سے قابض دشمن کے دل میں خوف طاری کرتا ہے۔ یہ اسکواڈ ہر محاذ پر وہی جرأت، مہارت، اور مزاحمت کا جوہر پیش کرتا ہے جس کی بنیاد فتح قمبرانی نے رکھی تھی۔ ان کے ہر حملے میں فتح کی روح بولتی ہے، ہر گولی میں اُس کا لہو گردش کرتا ہے۔ فتح اسکواڈ ہر معرکے میں فتح کے جنگی نقش قدم پر چل کر دشمن کو وہ زخم دے رہا ہے جنہیں وہ ہر وقت چاٹتا رہتا ہے۔

شہید فتح قمبرانی کی بہادری کے کئی باب ہیں، مگر ‘مہر لاری’ کی لڑائی ایک تاریخی مثال ہے۔ وہ مقام جہاں دشمن نے پہاڑ کی چوٹی پر اپنے لئے مورچے قائم کی تھیں اپنے تہی سمجھتا تھا کہ اس نے ایک ناقابل تسخیر کیمپ قائم کیا ہے۔۔۔۔ لیکن فتح نے وہاں بھی دشمن کے غرور کو خاک میں ملا دیا۔ ہر مورچے میں گھسا، دشمن کو نیست و نابود کیا، اور کیمپ کو راکھ میں بدل دیا۔ یہ نہ صرف عسکری فتح تھی بلکہ نفسیاتی بھی، جو دشمن کے غرور کو مسمار کر گئی۔

شہید فتح کی زندگی اور قربانی بلوچ مزاحمت کی وہ سچائی ہے جسے نہ تو وقت مٹا سکتا ہے، نہ دشمن کی گولیاں۔ وہ شہید ہو کر بھی ہر معرکے میں لڑتا ہے، ہر پہاڑ پر گونجتا ہے، اور ہر بلوچ دل میں دھڑکتا ہے۔ فتح بلوچ تاریخ، کے اس صفحے کی گواہی ہے جو بلوچ مزاحمت میں لہو سے لکھا گیا ہے ۔ وہ کوئی عام جنگجو نہ تھا، وہ پہاڑوں کا شیر تھا، وہ بارود کی مہک میں پلنے والا سپاہی تھا جس کی سانسوں میں مزاحمت اور خون میں آزادی کی گردش چلتی تھی۔ فتح وہ نام ہے جسے بلوچ تاریخ نے اپنے زخمی صفحات پر لہو کی روشنائی سے لکھا ہے۔

فتح مزاحمت کا استعارہ تھا ۔ فتح مر نہیں سکتا، کیونکہ نظریے کبھی نہیں مرتے وہ پہاڑوں کی گونج بن کر تا ابد زندہ رہتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔