چہروں کی دوپہر میں جنگ کا سایہ – برزکوہی

115

چہروں کی دوپہر میں جنگ کا سایہ

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

یہ تصویر اگر دیوار پر لٹکائی جائے، تو وقت رُک جائے۔ دو عورتیں ہیں، دونوں کے چہروں پر خاموشی ہے، مگر ایک خاموشی میں ہنسی گونجتی ہے، اور دوسری میں نظریہ دفن ہوتا ہے۔ ایک نے ہتھیار جھکا دیئے، دوسری نے گردن اٹھا لی۔ ہتھیار پھینکنے والی کے چہرے پر شکست نہیں، اطاعت ہے۔ وہ اپنی آنکھیں جھکاتی ہے، جیسے صرف بندوق سے نہیں بلکہ ان خوابوں سے بھی الگ ہو رہی ہو جو کبھی اس کے رائفل کے ساتھ زمین پر لیٹتے تھے۔ اس کے سامنے کوئی دشمن نہیں، کوئی زنجیر نہیں، صرف حکم ہے۔ اور حکم کی تعمیل میں جو تکلیف ہے، وہ اس گولی سے کہیں زیادہ اذیت ناک ہے جو سینے کو چیرتی ہے۔ ہتھیار نیچے رکھنے والی لڑکی، جو شاید کبھی پہاڑوں کی چوٹی پر کھڑی ہو کر دشمن کی پوزیشن نوٹ کیا کرتی تھی، آج ہتھیاروں کے سامنے نظریں نیچی کیئے کھڑی ہے۔ بندوقیں قطار میں رکھیں ہیں، جیسے لاشیں کسی نامعلوم جنگ کے بعد زمین پر سمیٹے گئیں ہوں۔ ہر ہتھیار ایک کہانی رکھتا ہے، ایک مورچہ، ایک بارودی سرنگ، ایک دُھواں، ایک گیت۔

ایک نے مزاحمت چھوڑ دی اور دوسری نے قید کو مزاحمت میں بدل دیا۔ مزاحمت ترک کرنا ہمیشہ بزدلی نہیں ہوتا، مگر یہ کبھی بھی بےدرد نہیں ہوتا۔ جو ہتھیار گرتا ہے، اس کے ساتھ یادیں بھی گرتی ہیں، اور جن کے کندھوں پر وہ بندوق رکھی جاتی تھی، ان کے دلوں پر سے بوجھ ہٹتا نہیں، بڑھتا ہے۔ اور جو قید میں ہنستی ہے، وہ اپنے جسم کے درد سے انکار نہیں کرتی، وہ صرف ریاست کی زبان کو شکست دیتی ہے۔ وہ ہنسی، جسے عام آنکھ خوشی سمجھ بیٹھتی ہے، درحقیقت سچائی کی ایک ایسی خنجر ہے، جو نہ خون بہاتی ہے، نہ چیخ سناتی ہے، مگر سامراجی بیانیئے کے گلے میں اٹک جاتی ہے۔

اس وقت جب ہتھیاروں کی قطار کے سامنے جھکی ہوئی آنکھیں فیصلہ کر رہی تھیں کہ پیچھے ہٹنا آسان ہے، اسی لمحے عدالت کے گیٹ پر ماہ رنگ کی آنکھیں اعلان کر رہی تھیں کہ آگے بڑھنے کے لیے لازم نہیں کہ تمہارے ہاتھ میں بندوق ہو، کبھی کبھی ہنسی بھی گولی سے زیادہ بارود رکھتی ہے۔ جنگ کے راستے بندوق سے نہیں، بصیرت سے جیتے جاتے ہیں۔ بصیرت وہ ہے جو زخم پر مرہم نہیں رکھتی، بلکہ زخم کو آئینہ بنا دیتی ہے۔

ہتھیار زمین پر رکھ دینا آسان نہیں ہوتا۔ یہ محض ایک فوجی عمل نہیں، یہ ایک فکری واردات ہے، جس میں لڑنے والے کی یادداشت، اس کی کمٹمنٹ، اس کا ضمیر سب ایک لمحے میں بےلباس ہو جاتے ہیں۔ بندوق کی نالی سے نکلنے والی گولی شاید دشمن کو مارتی ہے، مگر بندوق کا چھوڑا جانا خود اس جہدکار کے اندر کسی چیز کو مار دیتا ہے۔ کوئی روشنی، کوئی تمنا، کوئی تشخص، سب کچھ ماند پڑ جاتا ہے۔

ماہ رنگ کی مسکراہٹ اس لیئے زیادہ گونج دار ہے کیونکہ وہ کسی فیصلے کا نتیجہ نہیں، بلکہ ایک مسلسل انکار کی گواہی ہے۔ وہ لڑکی جس نے اپنی ہنسی سے جیل کی دیواروں کو چیلنج کیا، وہ کوئی فاتح نہیں، نہ ہی کسی تقریب کی مہمان، وہ بس ایک قیدی ہے جو مزاحمت کے فلسفے میں اپنی شناخت کو دفن نہیں ہونے دیتی۔ وہ جانتی ہے کہ ریاست اسے جسمانی طور پر توڑ سکتی ہے، مگر شعوری طور پر فتح نہیں کرسکتی۔

جہاں ہتھیار پھینکے جا رہے ہیں، وہاں صرف بندوقیں نہیں ٹوٹ رہیں، بلکہ ایک پوری فکری ترتیب درہم برہم ہو رہا ہے۔ یہ صرف ایک فرد کی تھکن نہیں، یہ اس تنظیمی خلا کی نشانی ہے جہاں قیادت خود اپنی زبان سے نظریئے کو بدل دیتی ہے، جہاں سیاسی عملداری مزاحمتی شعور سے الگ ہو جاتی ہے، اور جہاں مصلحت انکار پر حاوی ہو جاتا ہے۔ مزاحمت کی خوبصورتی صرف کامیابی میں نہیں، بلکہ اس استقامت میں ہے جو بغیر کسی امید کے بھی زندہ رہتی ہے۔ وہ چہرا جو عدالت میں ہنستا ہے، وہ محض فرد نہیں، وہ ایک پوری تحریک کی اخلاقی برتری کی علامت ہے۔
وہ جو ہتھیار جھکاتی ہے، شاید اُسے یہ یقین دلایا گیا ہو کہ بندوق کے بغیر بھی جدوجہد ممکن ہے۔ شاید اُس نے مان لیا ہو کہ بندوقیں اب رستہ نہیں، بوجھ بن چکی ہے۔ شاید وہ راتیں، جن میں وہ شہیدوں کی میتیں ڈھانپتی تھی، اب خواب بن گئی ہوں، اور وہ خواب، جن میں انقلاب چلتا پھرتا تھا، اب کسی جلسے کی تقریر بن چکے ہوں۔ مگر جنگ صرف ہتھیاروں کی نہیں، یادداشتوں کی بھی ہوتی ہے۔ اور یادداشت کبھی تنظیمی بیانات سے نہیں مٹتی، وہ تو زخمی جسموں، بےدفن لاشوں، اور گمشدہ ماؤں کے دلوں میں بسی رہتی ہے۔
جب ایک جہدکار ہتھیار رکھتا ہے، وہ صرف اپنی ہتھیلیاں خالی نہیں کرتا، وہ پیچھے ان فدائیوں کی خوبصورتی بھی چھوڑ دیتا ہے جو پتھروں میں بھی نظریہ تراشتے تھے، جو بارود کے بیچ محبت بانٹتے تھے، اور جو جنگ کو ماتم نہیں، تہذیب بناتے تھے۔ ان کے نقش قدم مٹائے نہیں جا سکتے، مگر ان پر دوبارہ نہ چلنے کا انتخاب، خود ایک زخم ہے جو آنے والی نسلوں کی بصیرت کو خراش دے گا۔ قیادت کی غلطیاں، تھکن، اور وقتی دباؤ اپنی جگہ مگر ان سب سے بڑی تباہی وہ ہوتی ہے جب جنگ کو یاد رکھنے والے کم اور بھول جانے والے زیادہ ہو جائیں۔

ماہ رنگ کی وہ ہنسی قید سے نکلنے کی امید نہیں، قید کو بےمعنی بنانے کا اعلان ہے۔ اس لمحے میں جب ریاست اسے عدالت میں پیش کرتی ہے، وہ صرف اپنا چہرہ نہیں دکھاتی، وہ پوری ریاست کو ایک آئینہ تھما دیتی ہے، جس میں وہ اپنے ظلم کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ اور کوئی قابض ریاست کبھی خود کو اس زاویئے سے نہیں دیکھنا چاہتی، جہاں بندوقیں خاموش ہوں، مگر قیدی بول رہے ہوں۔

تحریک کی روح ان لیڈروں میں نہیں جو مائیکروفون کے سامنے پالیسی پڑھتے ہیں، بلکہ ان چہروں میں ہوتی ہے جو عدالت میں بغیر صفائی کے بھی سچے رہتے ہیں۔ شہداء کی خوبصورتی صرف اس میں نہیں کہ وہ مر گئے، بلکہ اس میں ہے کہ وہ نظریئے سے مرے۔ وہ مسکرا کر مرے، وہ چپ رہ کر مرے، وہ لڑتے ہوئے مرے۔ اور ان کی موت کو اگر ہم آج کے فیصلوں کے تحت محض ماضی کی داستان بنا دیں، تو ہم صرف ان کی لاشوں سے نہیں، ان کے خوابوں سے بھی غداری کرتے ہیں۔

وہ جو مسکرائی، اس نے کچھ ثابت نہیں کیا۔ اس نے بس کچھ مٹنے نہیں دیا۔ وہ جو جھکی، اس نے کچھ ہارا نہیں، مگر وہ کچھ بچا بھی نہ سکی۔

یہ سچ ہے کہ مزاحمت ہمیشہ ایک ہی رنگ میں نہیں رہتی۔ وقت کے ساتھ راستے بدلتے ہیں، لیکن نظریئے کا چہرہ اگر ہر تصویر میں اجنبی لگنے لگے، تو ہمیں صرف دشمن پر نہیں، خود پر بھی شک کرنا چاہیئے۔ ہم میں سے ہر وہ شخص جو یہ منظر دیکھتا ہے، وہ ایک گواہ ہے۔ نہ صرف اس ہتھیار کا جو زمین پر رکھا گیا، بلکہ اس ہنسی کا بھی جو قید میں جنم لیتی ہے۔ وہ ہنسی فیصلہ نہیں سناتی، نہ کسی کو مجرم کہتی ہے۔ وہ صرف یاد رکھتی ہے۔ اور یاد رکھنے والوں سے بڑا مزاحمتکار کوئی نہیں ہوتا۔

تحریکیں مارنے سے نہیں مرتیں، وہ تب مرتی ہیں جب ان کی ہنسی اور آنسو دونوں غیر سیاسی ہو جائیں۔ وہ تب مرتی ہیں جب ہتھیاروں کا وزن ذہن سے زیادہ ہو جائے، اور فیصلے روح سے خالی۔ اس وقت جنگ ختم نہیں ہوتی، وہ صرف رُک جاتی ہے۔ اور جو جنگ رُک جائے مگر ختم نہ ہو، وہ پھر کبھی قہقہے میں واپس نہیں آتی، صرف سسکیوں میں پلتی ہے۔

شاید سچ یہ ہے کہ جو ہنستا ہے، وہی آخری سپاہی ہوتا ہے۔ اور جو خاموش ہوتا ہے، وہ شاید سب کچھ کہہ چکا ہوتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔