پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری طور پر لاپتہ تنظیم کے رہنما غنی بلوچ کی نشست علامتی طور پر خالی رکھی گئی
نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کی پندرہویں مرکزی آرگنائزنگ باڈی کا اجلاس مورخہ 9 اگست 2025 کو کوئٹہ میں منعقد ہوا، جس کی صدارت پارٹی کے مرکزی آرگنائزر ایڈوکیٹ شاہ زیب بلوچ نے کی۔
اجلاس کے ایجنڈے میں سیکریٹری رپورٹ، مختلف کمیٹیوں کی رپورٹس، تنقیدی جائزہ برائے تعمیر، عالمی و علاقائی سیاسی صورتحال، تنظیمی امور اور آئندہ کا لائحہ عمل شامل تھا۔
تنظیم کی جانب سے میڈیا کو فراہم کردہ تفصیلی بیان میں کہا گیا ہے کہ اجلاس کے دوران جبری طور پر لاپتہ مرکزی رہنما غنی بلوچ کی نشست ان کی قربانی اور جدوجہد کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے علامتی طور پر خالی رکھی گئی اس اقدام نے اجلاس کے آغاز سے ہی ایک سنجیدہ اور احتجاجی فضا قائم کردی، جس کا مقصد ریاستی جبر اور کارکنوں کی قربانیوں کو اجاگر کرنا تھا۔
اجلاس کا آغاز شہدائے بلوچستان کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی سے ہوا جس کے بعد ایجنڈے پر باضابطہ کارروائی کا آغاز کیا گیا۔
اجلاس کے پہلے ایجنڈے میں ڈپٹی آرگنائزر نے سیکریٹری رپورٹ پیش کی جس میں گزشتہ عرصے کی تنظیمی سرگرمیوں، کامیابیوں، چیلنجز اور مختلف شعبوں میں پیش رفت کا احاطہ کیا گیا بعد ازاں مختلف کمیٹیوں کے نمائندگان نے اپنی کارکردگی رپورٹس پیش کیں جن میں جاری سرگرمیوں، اہداف، وسائل کے استعمال اور عوامی رسائی سے متعلق نکات شامل تھے۔
تنقیدی جائزہ برائے تعمیر کے ایجنڈے میں تمام رپورٹس پر تفصیل سے بحث کی گئی شرکاء نے مثبت پہلوؤں کی تحسین کی اور جہاں خامیاں نظر آئیں، وہاں تعمیری تجاویز پیش کیں۔
بین الاقوامی امور پر گفتگو کرتے ہوئے، شرکاء نے ڈونلڈ ٹرمپ کی “پولیٹیکل بیلنس” پالیسی کا حوالہ دیا جس کے تحت امریکہ عالمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم رکھ کر اپنے قومی مفادات کو ترجیح دیتا ہے اس تناظر میں روس، چین، بھارت اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر تفصیلی گفتگو کی گئی اور ایران، اسرائیل جنگ اور امریکہ کے کردار پر بھی روشنی ڈالی گئی۔
رہنماؤں نے کہا کہ دنیا نئے نظریات کی جانب بڑھ رہی ہے خصوصاً ڈیٹا سائنس اور مصنوعی ذہانت جیسے شعبے جو صرف روزگار کے طریقے ہی نہیں بلکہ سماجی و سیاسی نظام کی نوعیت کو بھی بدل سکتے ہیں ان تبدیلیوں کے اثرات لبرل جمہوریت اور سرمایہ دارانہ ڈھانچے پر بھی پڑ سکتے ہیں اور ممکن ہے کہ مستقبل میں ان کی جگہ نئے معاشرتی و اقتصادی نظام ابھریں۔
بلوچستان کی صورتحال پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا گیا کہ موجودہ آپریشنز، گرفتاریاں اور کریک ڈاؤن محض سیکیورٹی خدشات نہیں بلکہ سیاسی شعور اور فکری مزاحمت کو دبانے کی منظم کوشش ہیں باشعور طلبہ، سیاسی کارکن، اور مزاحمتی آوازیں اس ریاستی جبر کا ہدف ہیں بارکھان سمیت بلوچستان بھر میں جبری گمشدگیوں، چادر و چار دیواری کی پامالی، اور خواتین کی بے حرمتی جیسے واقعات پر گہری تشویش ظاہر کی گئی۔
کراچی سے زکریہ بلوچ، زاہد بلوچ سمیت کئی افراد کی جبری گمشدگیاں اس جاری سلسلے کا تسلسل قرار دی گئیں بی وائی سی کی قیادت، بالخصوص ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ اور ان کے ساتھیوں کی طویل حراست، جسمانی ریمانڈ، اور عدالتی عمل کی غیر جانبداری پر سوالات اٹھائے گئے جسے خطرناک نظیر قرار دیا گیا۔
شرکاء نے واضح کیا کہ یہ سب اقدامات شہری آزادیوں اور سیاسی عمل پر حملہ ہیں جن کا مقصد احتجاج، اظہارِ رائے اور سیاسی شمولیت کو محدود کرنا ہے اسلام آباد میں لاپتہ افراد کے لواحقین کے احتجاج کو محدود کرنے کی کوششوں کو بھی جمہوری اصولوں کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔
جبری گمشدگیوں، ڈیتھ اسکواڈ کے پھیلاؤ، اور ماورائے عدالت کارروائیوں پر شدید تشویش ظاہر کی گئی، شرکاء نے خبردار کیا کہ یہ اقدامات بلوچستان میں خانہ جنگی جیسے حالات کو جنم دے سکتے ہیں اور عوامی اعتماد کو مکمل طور پر ختم کر سکتے ہیں۔
یہ بھی کہا گیا کہ سامراجی پالیسیاں عوام کو کرپشن، مایوسی اور فکری زوال کی طرف دھکیل رہی ہیں سیاسی کارکنوں کو چاہیے کہ وہ اس پروپیگنڈے کو پہچانیں اور متبادل بیانیہ تیار کریں جس میں سچائی کو مؤثر انداز میں پیش کیا جائے صرف سچ بولنا کافی نہیں اسے پیش کرنے کا اسلوب اور اثر انگیزی بھی اہم ہے۔
شرکاء نے خدشہ ظاہر کیا کہ بلوچستان کی ساحلی پٹی ممکنہ طور پر امریکہ کو لیز پر دی جا سکتی ہے تاکہ وہ اپنی توانائی اور فوجی ضروریات پوری کر سکے اور ایران کی پالیسیوں کا مقابلہ کر سکے ایسے اقدامات خطے کی سیاسی و جغرافیائی اہمیت پر گہرے اثرات ڈال سکتے ہیں۔
یہ بھی کہا گیا کہ سامراجی حکمت عملی کے تحت بعض افراد کو قوم کا نمائندہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے تاکہ انہیں بطور رہنما مسلط کیا جا سکے کارکنوں کو اس سازش کو سمجھنا اور اس کا مقابلہ کرنا ہوگا۔
اجلاس کے چوتھے ایجنڈے میں نظریاتی بحث کے دوران کہا گیا کہ بلوچ تحریکوں پر مارکسزم کا گہرا اثر رہا ہے مگر بعض اوقات معروضی حالات کو نظرانداز کر کے مارکسسٹ نظریات کو بلا تفریق اپنانے کی کوشش کی گئی جو غیر مؤثر ثابت ہوئی بلوچ قبائلی و مذہبی ڈھانچہ اب بھی صدیوں پرانا ہے جس میں کوئی فکری یا ساختی تبدیلی نہیں آئی جب کہ دنیا کے دیگر قبائلی معاشروں میں ارتقائی تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں۔
شرکاء نے کہا کہ اگر بلوچ سماج میں فکری و عملی تبدیلی نہ لائی گئی تو رجعت پسندی اور جمود داخلی تصادم کی صورت اختیار کر سکتا ہے اس خطرے سے بچنے کے لیے قومی یکجہتی، نظریاتی انویشن، اور مؤثر سیاسی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے نطشے کی مثال دیتے ہوئے کہا گیا کہ جس طرح اُس نے سماجی نظریات کو جھنجھوڑا اسی طرح بلوچ معاشرے میں بھی تبدیلی کی ضرورت ہے۔
اجلاس کے شرکاء نے کہا بلوچ قومی حقِ خود ارادیت کے حصول کے لیے لازمی ہے کہ عوام کو سماجی، معاشی، طبقاتی، سیاسی اور ذاتی آزادی حاصل ہو اس کے لیے سیاسی شعور کی بیداری بنیادی شرط ہے سیاسی تربیت، ادارہ جاتی ڈھانچے اور منظم جدوجہد کو ترجیح دی جائے۔
رہنماؤں نے کہا کہ بلوچستان جیسے ماحول میں جہاں سیاست کو جرم بنا دیا گیا ہے کارکنوں پر لازم ہے کہ وہ عوامی شعور کو بیدار کریں اور ایک باشعور، منظم اور نظریاتی کیڈر تیار کریں۔
اجلاس کے اختتام پر آئندہ کے لائحہ عمل پر تفصیلی گفتگو کی گئی تنظیم کو مزید فعال، مربوط، اور مؤثر بنانے کے لیے کئی اہم فیصلے کیے گئے ان میں تنظیمی ڈھانچے کی مضبوطی، عوامی رابطہ مہم کی وسعت، اور کارکنان کی تربیت کو مرکزی حیثیت دینا شامل تھا۔
سنگت اشفاق بلوچ کا استعفیٰ ذاتی مصروفیات کی بنیاد پر رابطہ کمیٹی کی سفارشات کے تحت باضابطہ طور پر منظور کر لیا گیا اجلاس نے ان کی خدمات کو سراہا اور عزم کیا کہ ہر رکن پارٹی کے نصب العین اور جدوجہد کو اپنی استطاعت کے مطابق جاری رکھے گا۔