میری مائیں واپس لوٹ آؤ
تحریر: دیدگ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اسلام آباد کی پُر رونق سڑکوں کے بیچوں بیچ، محکوموں کے لہو سے تعمیر اقتدار کی بلند و بالا عمارتیں ہیں، جبر پہ قائم ایوانوں میں فیصلے ہوتے ہیں۔۔۔ جب محلات محکوموں کے لہو سے تعمیر کیے گئے ہوں تو وہاں گدی نشین کیا فیصلے صادر کرتے ہیں، اس ضمن میں تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔
وہاں ایک کونے میں کچھ چہروں پر صدیوں کا غم ہے — یہ وہ مائیں ہیں جن کے بیٹے انہی ایوانوں میں ہونے والے فیصلوں کی وجہ سے برسوں سے جبری لاپتہ ہیں۔ بلوچستان سے چل کر وہ یہاں تک پہنچی ہیں، اس لیے نہیں کہ ان گدی نشینوں کا دل پسیج ہو، بلکہ اس لیے کہ شاید ان کی آواز دنیائے عالم کو سنائی دیں۔۔۔صرف اسی امید پر کہ شاید ان کی آہیں کسی کے دل کو چیر دیں، شاید ان کے آنسو انسانیت کے علمبرداروں کے ضمیر کو جگا دیں۔۔۔۔ ہاں صرف اس امید پر کہ اسلام آباد کی فضاوں کو چھیرتی ہوئی ان کی آواز سمندروں کے پار چلی جائے، جہاں انسانیت کے نام پہ ادارے قائم ہیں۔۔۔ ان کا کردار بھی محکوموں کی دادرسی کا اب تک وسیلہ نہیں بنا، لیکن پھر بھی ایک آس، ایک امید زندہ ہے۔
یہ مائیں دن رات کھلے آسمان تلے بیٹھی ہیں۔ نہ دھوپ کی پروا ہے، نہ بارش کی خبر، نہ بھوک کی، کیونکہ ان کے دل پر جو دکھ کے سائے چھائے ہوئے ہیں، وہ موسموں کے الم سے سنگین تر ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں اپنے بیٹوں کی تصاویر ہیں، کچھ پرانی، کچھ نئی— البتہ سب پر ایک سوال تحریر ہے۔ یہ کہاں گئے؟
یہ مائیں روز آسمان کی طرف دیکھتی ہیں، شاید اقوام عالم کی طرف سے کوئی اشارہ، کوئی امید، کوئی اطمینان کا لمحہ نازل ہو۔ کہ اس شہر استعمار میں نہ کوئی عدالت کھلتی ہے، نہ کوئی ادارہ جواب دیتا ہے، نہ ہی کوئی گدی نشین ان کی بات سننے کو تیار ہے۔ ان کے صبر کو مسلسل آزمایا جا رہا ہے، جیسے ان کے زخموں کو گننے کی بجائے انہیں اور بڑھایا جا رہا ہو۔
ہر دن گزرنے کے ساتھ ان کی آنکھوں کی روشنی مدھم ہوتی جارہی ہے، ان کی نیند کئی برسوں سے چھن چکی ہے۔ مگر دل میں امید کا دیا اب بھی جل رہا ہے کہ شاید عالم غفلت کا غلاف اتار پھینک دے۔
یہ مائیں چیخ نہیں رہیں، فریاد بھی نہیں کر رہیں، وہ تو بس بیٹھی ہیں۔ کبھی خاموشی میں، کبھی زیر لب دعاؤں میں تو کبھی گم سم روح پرواز جیسی لیکن ان کا درد سب کچھ کہہ جاتا ہے۔ وہ کسی سے دشمنی نہیں چاہتیں، انہیں صرف انصاف کی تلاش ہے، وہ بھی اس کافرآباد سے نہیں، بلکہ دنیا عالم کے انسانیت کے دعویداروں سے۔۔۔ لیکن وہاں سے بھی تو کوئی شنوائی نہیں۔۔۔ سات دہائیوں سے نہیں۔۔۔۔ان ماؤں کو اب ہم جیسے جوان کیسے سمجھائیں کہ کسی سے امید باندھنا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے کہ انسانیت تو کب کا مرچکا ہے۔
واپس بلوچستان لوٹ آؤ۔ کہ اس شہرِ سنگ دل میں تمہارے دکھ کو سمجھنے والا کوئی نہیں۔ یہاں صرف بلند دیواریں ہیں، سرد چہروں والے لوگ، اور بند دروازے۔ تمہاری سسکیاں ان کے دلوں پر اثر نہیں کرتیں، تمہارے آنسو ان کے فرش کو بھی نہیں بھگوتے۔ یہاں تم بس ایک خبر ہو، ایک منظر، ایک لمحاتی درد — جو کیمرہ آف ہوتے ہی بھلا دیا جاتا ہے۔ تمہارے آنچل کی نمی یہاں کسی کو بے چین نہیں کرتی، تمہارے سوال یہاں شور نہیں بن پاتے۔ یہاں انصاف ایک خواب ہے، جو صرف کچھ مخصوص طبقات کے لیے جاگتا ہے۔ اور دنیا یہ جانتی ہے، پر وہ بھی خاموش اور جرم میں شریک۔
واپس بلوچستان لوٹ آؤ، وہی پہاڑ، وہی وادیاں، وہی سنسان گلیاں، جہاں ہر چہرہ تمہارے غم کا عکس ہے۔ جہاں تمہیں خاموشی میں بھی تسلی ملتی ہے، جہاں کوئی تمہارے پہلو میں بیٹھ کر آنکھوں سے ہی تمہارے درد کو بانٹ لیتا ہے۔ اس اجنبی شہر میں تم تنہا ہو، لیکن اپنے وطن، اپنے لوگوں کے بیچ تمہارا دکھ بانٹنے والے ہزاروں چہرے موجود ہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے بھی اپنے بیٹے کھوئے ہیں، وہ مائیں جن کی آنکھوں سے تمہاری طرح برسوں کا نیند چھن چکا ہے۔ اپنی خاک پہ نہ کوئی طاقتور ہے، نہ کوئی ادارہ، لیکن درد مشترک ہے — جو تمہیں اکیلا محسوس نہیں ہونے دیتا۔
وہاں اسلام آباد کی سڑکوں پر تمہیں روز نیچا دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تمہیں ڈرایا جاتا ہے، تمہارے خیمے اکھاڑے جاتے ہیں، تمہیں کہا جاتا ہے کہ تم “قومی مفاد” کے خلاف ہو۔ مگر کیا ایک ماں کا سوال کہ اس کا بیٹا کہاں ہے — کسی ملک دشمنی کے زمرے میں آتا ہے؟ کیا آنکھوں میں اپنے لختِ جگر کی تصویر لیے بیٹھی عورت سے خوف کھانا کسی ریاست کو زیب دیتا ہے؟
اے قوم کی مائیں! اس بات کا بھی تمہیں ادراک ہے کہ اس دیار غیر والوں کے پاس وقت نہیں، دل نہیں، ضمیر نہیں۔ وہاں تمہارا بیٹھنا، تمہاری فریاد، تمہارا دھرنا ، سب وقت کا ضیاع ہے۔۔۔ اور بلوچستان میں تمہارا ہر نکڑ پہ عزت ہے، ہر آنسو ایک قرض ہے۔ اسی لیے کہتا ہوں کہ
واپس آؤ، کیونکہ تمہارے دکھ سمجھنے کے لیے صرف اپنی مٹی کافی ہے جہاں تم نے اپنے بچوں کو پیدا کیا، پالا، اور ایک دن انہیں چھینا گیا ۔۔ ان کے چھینے جانے سے تم نے صدا بلند کی، جو اب بحر بلوچ سے کوہ سلیمان تک سنائی دیتی ہیں۔
بلوچستان تمہاری آغوش ہے، یہ شہر صرف تماشائی ہے۔ لیکن بلوچستان وہ اب بھی تمہیں تمہاری خاموشی سمیت پہچانتا ہے۔ وہ پہاڑ، جنہوں نے تمہارے بیٹے کے قدموں کی چاپ سنی ہے، وہ اب بھی تمہیں بلاتے ہیں۔ وہ گلیاں، جہاں تمہاری گودوں سے کھیلتے بچے نکلے تھے — آج بھی تمہاری راہ تکتی ہیں۔ وہ چولہے، جو ٹھنڈے پڑ چکے ہیں — اب بھی تمہارے بیٹوں کے لوٹنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ مٹی، جو ہر روز تمہارے لختِ جگر کے نقش ڈھونڈتی ہے — اب بھی تمہاری راہ تھک رہی ہے۔
واپس آؤ، تاکہ تمہاری تکلیف تمہاری نہیں، پوری قوم کا غم ہے۔۔۔ آؤ اسے ایک اجتماعی فریاد بنائیں۔ میری مائیں واپس آؤ، تاکہ تمہارے زخموں پر وہ ہاتھ رکھے جائیں جو دکھ میں پل کر بڑے ہوئے ہیں۔ وہاں، اس بے حس شہر میں تم صرف انتظار کرسکتی ہو، جو کار گراں ہے۔
واپس لوٹ آو! کہ تم ہی امید ہو، اس قوم کی۔ تم ہی پہچان بن چکی ہو، تم ماضی ہو، تم حال ہو، تم ہی روشن مستقبل۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔