مرکزی کمیٹی کا پانچواں اجلاس زیرِ صدارت مرکزی ڈپٹی آرگنائزر لالا وہاب بلوچ منعقد ہوا۔ اجلاس میں تنظیم کی موجودہ صورت حال، بلوچستان اور خطے میں بدلتے ہوئے سیاسی منظرنامے، آئندہ کی پالیسی، پروگرام اور حکمتِ عملی پر تفصیلی غور و فکر اور بحث و مباحثہ کیا گیا۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے رہنماؤں نے کہا کہ تنظیم پر بدترین کریک ڈاؤن، قیادت کی گرفتاری، سیاسی سرگرمیوں پر غیر اعلانیہ پابندی اور مسلسل رکاوٹوں کے باوجود جس طرح تنظیمی کیڈرز نے نہ صرف اپنی سیاسی و تنظیمی سرگرمیاں جاری رکھیں بلکہ بلوچستان بھر میں تنظیمی ڈھانچے کو فعال رکھا، وہ بلوچ قومی تحریک کے لیے باعثِ حوصلہ اور امید افزا ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت نے ہمیشہ تنظیمی ڈھانچے اور تنظیمی کیڈرز کی فعالیت پر خصوصی توجہ دی ہے، جس کے مثبت نتائج آج ہمارے سامنے ہیں۔ ریاستی مشینری کے مکمل استعمال اور طاقت و جبر کے باوجود نہ صرف تنظیم نے اپنی موجودگی برقرار رکھی بلکہ تنظیمی پروگرام میں مثبت ترقی آئی ہے، جس کا بنیادی سبب قیادت کی مسلسل توجہ اور وابستگی ہے۔
رہنماؤں نے مزید کہا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی ایک جمہوری سیاسی تنظیم ہے جو جمہوری اصولوں پر یقین رکھتے ہوئے بلوچ قومی حقوق اور قومی تشکیلِ نو کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، بی وائی سی بلوچ نسل کشی کے خلاف ایک منظم سیاسی تحریک بھی چلا رہی ہے جس نے دالبندین سے گوادر تک بلوچ عوام کو متحرک کیا ہے اور ان میں سیاسی شعور بیدار کیا ہے۔ تنظیم کے کارکنان کو چاہیے کہ وہ بیک وقت تنظیمی پروگراموں اور سیاسی تحریک دونوں پر یکساں توجہ دیں اور کسی بھی خوش فہمی میں مبتلا ہوئے بغیر ریشنل بنیادوں پر تنظیمی امور پر غور و فکر کریں۔ تنظیم کی ترقی و کامیابی غور، فکر اور عمل سے مشروط ہے؛ اس لیے ہر کارکن اور کیڈر پر لازم ہے کہ وہ اس فلسفے کو اپنائے اور بلوچ قومی تحریک کو منظم کرنے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔
دنیا اور خطے کے بدلتے ہوئے سیاسی منظرنامے پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے رہنماؤں نے کہا کہ ہم اس وقت عالمی سیاست میں تیزی سے بڑی تبدیلیاں رونما ہورہی ہے، جہاں ریاستوں کے درمیان اتحاد، دشمنی، مفادات اور بیانیے تیزی سے تشکیلِ نو کے مراحل سے گزر رہے ہیں۔ حالیہ عرصے میں مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل و ایران کے درمیان شدید کشیدگی، فلسطین کا تنازعہ اور عالمی ردِعمل، بھارت و پاکستان کے تعلقات میں مسلسل جمود، روس و یوکرین کی جنگ کا طول پکڑنا اور نیٹو کی کھل کر شمولیت، ان تمام واقعات نے دنیا میں طاقت کا توازن خطرناک حد تک غیر متوازن کر دیا ہے۔
جنوبی ایشیا میں بھی سیاسی صف بندی کی نئی شکلیں ابھر رہی ہیں۔ بھارت کی ایران کے ساتھ چابہار معاہدے پر دستخط، جب کہ بنگلہ دیش میں اقتدار کی تبدیلی اور حلیف ریاستوں کے تعلقات میں تبدیلی، افغانستان میں طالبان حکومت کو روس کی جانب تسلیم کرنا۔ ادھر امریکہ کی اقتصادی پالیسیاں اور چینی معیشت پر دباؤ ڈالنے کی حکمتِ عملی، دنیا میں نئے اقتصادی بلاکس کی تشکیل کا پیش خیمہ بن رہی ہیں۔
ان حالات میں بین الاقوامی تعلقات میں “بیلنس آف پاور” اور “قومی مفادات” کے تصورات اب صرف نظری مباحث نہیں رہے، بلکہ عملی سیاست کی بنیاد بن چکے ہیں۔ ریاستیں اب اخلاقیات یا نظریاتی وابستگی کے بجائے خالص مفادات کی بنیاد پر فیصلے کر رہی ہیں۔ اسی عالمی منظرنامے میں بلوچستان بھی اہم اسٹریٹیجک مقام پر واقع ہے، جو جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا کے درمیان ایک ممکنہ پل کی حیثیت رکھتا ہے، لیکن جس طرح سے اس عالمی منظر میں اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ہم اس سے بیگانہ نظر آتے ہیں۔
رہنماؤں نے اس بات پر زور دیا کہ بلوچستان کے ہمسایہ ممالک کے باہمی تناؤ، سرحدی تصادمات اور عالمی طاقتوں کے پراکسی مفادات کا براہِ راست اثر بلوچ عوام اور ان کے مستقبل پر پڑتا ہے۔ اس تناظر میں بلوچ سیاسی تنظیموں کے لیے یہ ناگزیر ہو چکا ہے کہ وہ محض جذباتی یا وقتی ردعمل پر مبنی سیاست سے اجتناب کرتے ہوئے، عقلیت پسندی، دور اندیشی اور قومی مفاد پر مبنی حکمتِ عملی اپنائیں۔
موجودہ عالمی انتشار کے ماحول میں صرف وہی سیاسی قوتیں کامیاب ہو سکتی ہیں جو داخلی وحدت، جمہوری رویے اور تجزیاتی فہم کے ساتھ اپنی حکمتِ عملی مرتب کریں۔ بلوچ قیادت پر یہ تاریخی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عالمی سیاسی تبدیلیوں کو محض تماشائی بن کر نہ دیکھے، بلکہ ان میں اپنے قومی مفاد کے مواقع تلاش کرے، اور ایک واضح، فعال اور مربوط سیاسی لائحہ عمل کے ذریعے بلوچ قومی سوال کو ایک نئے سیاسی سیاق میں اجاگر کرے۔
اجلاس کے اختتام پر، سابقہ کمزوریوں کا جائزہ لیتے ہوئے ایک طویل بحث و مباحثے کے بعد مستقبل کے لیے تنظیمی پروگرام، پالیسی اور حکمتِ عملیاں مرتب کی گئیں۔ اس سلسلے میں کئی اہم فیصلے بھی کیے گئے جنہیں تنظیم کی مرکزی کمیٹی، تنظیم کے ذیلی اداروں تک پہنچائے گی۔