محصور بلوچستان – ٹی بی پی اداریہ

10

محصور بلوچستان

ٹی بی پی اداریہ

بلوچستان پر مسلط متنازعہ حکومت کے فیصلوں نے عوام کو کھلی جیل میں بدل دیا ہے۔ انٹرنیٹ اور موبائل نیٹ ورک جیسی بنیادی سہولت پہلے ہی بند ہے، اور اب سفری پابندیاں، بینکوں اور بازاروں کی زبردستی بندش نے زندگی کو مفلوج کر دیا ہے۔ عام لوگ روٹی، علاج اور روزگار جیسے بنیادی حق کے لیے ترس رہے ہیں، جبکہ مقتدر حلقوں کے سیاسی چہرے زمینی حقیقت کو تسلیم کرنے کے بجائے میڈیا میں محض خوشنما بیانیہ بُننے میں مصروف ہیں۔

متنازعہ وزیرِاعلیٰ جشنِ آزادی کی تقریبات میں امن و ترقی کے دعوے دہراتے ہیں، لیکن عملی حقیقت یہ ہے کہ سیکیورٹی خدشات کے نام پر اہم شاہراہیں بند ہیں۔ کوسٹل ہائی وے، کوئٹہ-کراچی روٹ اور پنجاب سے ملانے والے زمینی و ریلوے راستے غیر اعلانیہ طور پر کاٹ دیے گئے ہیں۔ اس محاصرے نے بلوچستان کو اندرون ملک سے عملاً الگ کر دیا ہے۔

انٹرنیٹ بندش سے مزاحمت کو روکنے کا فارمولا بری طرح ناکام ہوا ہے۔ حالیہ ہفتوں میں رخشان ڈویژن کے ضلع واشک کے بسیمہ میں فوجی کیمپ پر حملے میں ایک کیپٹن سمیت نو اہلکار مارے گئے، اور ایسے حملے مختلف علاقوں میں جاری ہیں۔

عوام کو بھوکا، بے روزگار اور محصور رکھ کر جشنِ آزادی کے جھنڈے لہرائے جا سکتے ہیں، مگر نہ تو تحریکِ آزادی ختم ہوگی اور نہ سرمایہ کاری کا ماحول بنے گا۔ یہ پالیسیاں صرف عام لوگوں کے زخم گہرے کریں گی۔ تاریخ کی یہی غلطیاں دہرا کر مقتدر ادارے وقتی بیانیہ تو تراش سکتے ہیں، مگر زمینی حقیقت کو بدلنے کا اختیار ان کے ہاتھ میں نہیں۔