مجید بریگیڈ پہ امریکی پابندی کے محرکات – دیدگ بلوچ

73

مجید بریگیڈ پہ امریکی پابندی کے محرکات

تحریر: دیدگ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

حالیہ دنوں امریکہ کی جانب سے بلوچ مسلح تنظیم بی ایل اے کے فدائی یونٹ “مجید بریگیڈ” کو دہشتگرد قرار دینا زمینی حقائق کے منافی ہے، جو بلوچ قومی تحریک پر کوئی خاص اثر نہیں ڈالے گا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی ہمیشہ سے مفادات پر مبنی رہی ہے، نہ کہ اصولوں یا حقائق پر۔ دنیا جانتی ہے کہ واشنگٹن کے فیصلے بدلتے موسموں کی طرح ہوتے ہیں—آج جو گروہ ” دہشتگرد، کل وہی مذاکرات کی میز” آتا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ بلوچوں کی مزاحمت پرامریکہ کی مہرِ مذمت لگ گئی، سوال یہ ہے کہ اس فیصلے کے پیچھے اصل نیت کیا ہے؟ کیا امریکہ بلوچ تحریک کو نشانہ بنا کر بلوچستان میں پاکستان کے مفادات کو تحفظ دینا چاہتا ہے؟ یا پھر یہ علامت ہے اس بات کی کہ امریکہ ایک بار پھر افغانستان میں کسی نئی مداخلت یا گٹھ جوڑ کی تیاری کر رہا ہے، جس کے لیے پاکستان کی حمایت درکار ہے؟

موجودہ حالات کو دیکھ کر یہ کہا جارہا ہے کہ امریکہ نے یہ فیصلہ بھارت کو ہی مدنظر رکھ کر کیا ہے تاکہ بھارت امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دے اور روس سے تجارتی بندن توڑنے کا فیصلہ کرے۔ علاوہ ازیں اس کا دوسرا پہلو چین کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ بھی ہے جس سے امریکی مفادات کو زک پہنچ سکتی ہے، لہذا ہم کہہ سکتے ہیں امریکہ کبھی بھی ایسا قدم بغیر کسی جیو اسٹریٹیجک فائدے کے نہیں اٹھاتا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو خوش رکھنے کے لیے عالمی سامراج نے بلوچ مسلح تنظیم کے فدائی یونٹ کو اپنے نشانے پہ رکھا۔

بلوچ مزاحمت کاروں کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ عالمی طاقتیں ان کی جدوجہد کو ہمیشہ اپنے مفاد کے ترازو میں تولتی رہی ہیں۔ مگر بلوچ تحریک کی بنیاد کسی بیرونی ریاست کی منظوری یا تائید پر نہیں، بلکہ قومی آزادی پر مبنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ جیسے ملک کے کسی فیصلے سے بلوچوں کی سیاسی یا عسکری سوچ میں کسی قسم کی تبدیلی کا امکان نہیں۔

بی ایل اے کو امریکہ کی جانب سے دہشتگرد قرار دینا کھلی منافقت ہے۔ یہ فیصلہ ایک بار پھر اس حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے کہ دہشتگردی کی تعریف اصولوں کے بجائے طاقتور ریاستوں کے مفادات کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ انصاف، انسانی حقوق اور خودارادیت کے وہ عالمی معیار، جن کا پرچار مغربی دنیا دہائیوں سے کرتی آ رہی ہے، دکھاوے کی حد تک ہیں۔

امریکہ جیسے ممالک عالمی سطح پر اپنے مفادات کے لیے اصول بدلنے میں ماہر ہیں، اور پاکستان اس طرز عمل کا علاقائی عکس بن چکا ہے۔ پاکستان ہمیشہ سے امریکی مفادات کا ایک پروکسی رہا ہے—چاہے وہ افغان جنگ ہو، یا دہشتگردی کے خلاف نام نہاد جنگ—ہر موقع پر اس نے خود کو عالمی طاقتوں کے شطرنجی کھیل میں گروی رکھا ہے۔ ایسے میں بلوچوں کو “دہشتگرد” قرار دے کر ان کی آواز دبانا نہ کوئی نئی بات ہے، نہ حیرت کی۔

اصل سوال یہ ہے کہ کب تک عالمی طاقتیں مفاد کی عینک سے حق اور ظلم میں فرق کریں گے؟ کب تک طاقت ہی سچ کا پیمانہ بنا رہے گا؟ اور کب وہ وقت آئے گا جب اقوام عالم مظلوم قوموں کی آواز کو طاقتور ریاستوں کی زبان سے نہیں، خود ان کے نقطۂ نظر سے سننے کا حوصلہ رکھیں گی؟

ماضی میں امریکہ بہت سے تنظیموں اور لوگوں کو دہشتگرد یا ان پہ پابندی لگاچکا ہے لیکن وقت بدلنے پہ وہی دہشتگرد امریکہ کے قریبی دوست یا اتحادی بن گئے۔ امریکہ نے روس کے خلاف سعودیہ اور پاکستان کے تعاون سے مجاہدین کی بنیاد رکھ دی، پھر انہیں بھر پور مالی و عسکری کمک فراہم کی تاکہ سویت یونین کا شیرازہ پکھر جائے اور گرم پانیوں تک رسائی اس کے لیے فقط خواب بن جائے۔ اور پھر یہی امریکہ القاعدہ کو پناہ دینے پر طالبان کو دہشتگرد قرار دے کر افغانستان پہ چڑائی کردی، اس دوران افغان جنگ چھڑ گئی جس سے طالبان کی حکمرانی ختم ہوگئی، لیکن بعد میں پھر اسی امریکہ نے ۲۰۲۱ میں افغان جمہوری حکومت کو ختم کرکے دوحہ معاہدے کے تحت گدی طالبان کے سپرد کرکے افغانستان سے انخلا کرتی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ افغانستان میں امریکہ کے خلاف لڑائی میں حقانی نیٹ ورک نے صف اول کا کردار ادا کیا تھا۔ اور حقانی نیٹ ورک طالبان کا ایک طاقتور دھڑا سمجھا جاتا تھا، اس نیٹ ورک نے افغانستان میں امریکی فوج اور نیٹو افواج کے خلاف ایک منظم لڑائی لڑی، جن میں خود کش حملے سرفرست تھے اور جسے امریکہ نے دہشتگرد تنظیموں کے فہرست میں شامل کردیا تھا۔ لیکن جب انخلا پہ دوحہ مذاکرات کا آغاز ہوا تو حقانی نیٹ ورک کے نمائندے بھی اس میں شامل تھے۔ یعنی ایک طرف حقانی نیٹ ورک جسے امریکہ نے دہشتگرد قراد دیا اور اسی کے ساتھ مذاکرات بھی جاری رکھا۔ اس لیے کہتے ہیں کہ ملک اپنے مفادات کے اصولوں پہ چلتے ہیں۔

افغانستان ایک بار پھر عالمی سیاست کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ بظاہر سکون محسوس ہوتا ہے، مگر اندر ہی اندر حالات ایک نئی جنگ، یا کم از کم ایک نئی مداخلت کی تیاری کا اشارہ دے رہے ہیں۔ طالبان حکومت کے قیام کو چار سال سے زائد ہو چکا ہے، لیکن عالمی برادری نے اسے تسلیم نہیں کیا، جبکہ بیروزگاری، خواتین کے حقوق سمیت تعلیم، صحت اور آزادی جیسے مسائل پر طالبان کا سخت گیر رویہ دنیا کے لیے مسلسل پریشانی کا باعث ہے۔

اس پس منظر میں امریکہ کی خاموشی ایک بار پھر افغانستان میں اپنی موجودگی کو فعال بنانے کے لیے ممکنہ راستے تلاش کرتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ بات صرف اندازے پر مبنی نہیں، بلکہ حالیہ اشارے خاصے واضح ہیں۔ سب سے پہلا اشارہ بڑھتی ہوئی داعش کی دہشتگردی ہے جس کی ذمہ داری داعش خراسان گروپ لے رہا ہے۔ یہ گروپ نہ صرف طالبان حکومت کے لیے خطرہ بن چکا ہے، بلکہ مغرب کے لیے بھی ایک “نیا بہانہ” فراہم کرتا ہے۔

طالبان کی حکومت ابھی تک بین الاقوامی سطح پر تنہا ہے۔ ان کی پالیسیاں نہ صرف عالمی اقدار کے خلاف سمجھی جا رہی ہیں، ان حالات میں امریکی مفادات اور فوجی حکمت عملی دوبارہ اس خطے کی طرف مڑتی محسوس ہو رہی ہے۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ حالیہ مہینوں میں پاکستانی فوج کے سربراہ عاصم منیر دو بار امریکہ کا دورہ کر چکے ہیں، اور وہاں انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی جبکہ دوسری ملاقات امریکہ کے فوجی قیادت سے، ان ملاقاتوں سے کئی معنی اخذ کیے جاسکتے ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ پاکستان، خاص طور پر اس کی اسٹیبلشمنٹ، آنے والی امریکی پالیسی کے لیے پہلے سے خود کو تیار کر رہی ہے۔

یہ ملاقات طالبان کے لیے بھی ایک خاموش پیغام ہو سکتی ہے کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال سے مغرب خوش نہیں، اور پاکستان بھی بین الاقوامی مفادات کے مطابق اپنی پوزیشن ترتیب دینے کی کوشش میں ہے۔ امریکہ کی افغانستان میں مکمل واپسی کا امکان تو فی الحال نہیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکہ نے اس خطے کو مکمل نظرانداز نہیں کیا۔ ایمن الظواہری پر ہونے والا ڈرون حملہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ امریکی انٹیلیجنس اور عسکری نیٹ ورک اب بھی افغانستان کے اندر فعال ہے، چاہے وہ براہ راست موجود نہ ہو۔ امریکہ اس وقت دنیا کے کئی محاذوں پر مصروف ہے، جن میں یوکرین، مشرق وسطیٰ، چین اور انڈیا کے ساتھ تجارتی و عسکری کشیدگی شامل ہے۔ اس لیے اس کا افغانستان میں براہ راست حملہ کرنا شاید فوری طور پر ممکن نہ ہو، مگر خفیہ آپریشنز، طالبان کے خلاف جاری ہے۔ ایسے میں پاکستان کا کردار ایک بار پھر اہم ہو جائے گا۔ اگر امریکہ کو افغانستان پر اثرانداز ہونا ہے، تو اسے پاکستان کی فضائی حدود، انٹیلیجنس تعاون اور لاجسٹک سپورٹ کی ضرورت پڑے گی۔

جیسا کہ ماضی میں ہوا تھا۔ یہی وہ پس منظر ہے جس میں پاکستانی فوج اور امریکہ کے درمیان بڑھتے رابطے، خاص طور پر امریکہ کے صدر اور فوجی قیادت سے ملاقات، ایک نئی گیم پلان کا حصہ دکھائی دیتی ہے۔ اس ملاقات سے چین کو بھی ایک خاموش پیغام ملا ہے کہ پاکستان ابھی مکمل طور پر اس کے بلاک میں شامل نہیں ہوا۔ اگر امریکہ افغانستان میں دوبارہ متحرک ہوتا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ چین، ایران اور روس جیسے ممالک کے مفادات بھی براہِ راست متاثر ہوں گے، جو پہلے ہی طالبان حکومت سے محتاط تعلقات رکھے ہوئے ہیں۔

لہٰذا اگرچہ مکمل جنگ کے بادل فی الحال نہیں منڈلا رہے، مگر ایک نئی قسم کی سرد جنگ، پراکسی وار، اور انٹیلیجنس آپریشنز کی فضا ضرور بن رہی ہے۔ افغانستان ایک بار پھر بین الاقوامی طاقتوں کے لیے اسٹریٹیجک گیم کا میدان بنتا جا رہا ہے، اور اس کھیل کے ہر کھلاڑی نے اپنی چالیں چلنا شروع کر دی ہیں۔

ان تمام عالمی طاقتوں کی لڑائی میں بلوچ سیاسی اور مزاحمتی تنظیموں ایک بار پھر سے بھرپور تیاری کرنا ہوگا، چاہیے وہ سیاسی ہو یا مزاحمتی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔