بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اپنی قیادت کی گرفتاری کے خلاف جاری کردہ ایک بیان میں کہا ہے کہ تنظیم کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، مرکزی کمیٹی کے رکن بیبگر بلوچ، شاہ جی صبغت اللہ، گلزادی بلوچ، بیبو بلوچ اور عمران بلوچ کی غیر قانونی و غیر آئینی گرفتاری کو پانچ ماہ مکمل ہوچکے ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ بی وائی سی قیادت کی گرفتاری نہ صرف ان رہنماؤں یا تنظیم کے خلاف ریاستی کالونیل جبر کی ایک مثال ہے بلکہ یہ بلوچ قوم کے اجتماعی وجود اور ان کی قومی جدوجہد کو کچلنے کی دیرینہ ریاستی کوششوں کا تسلسل بھی ہے۔
تنظیم نے کہا کہ پاکستانی ریاست بلوچستان میں دہائیوں سے مقامی آبادی پر بدترین جبر و تشدد، جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل، مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی اور خواتین و بچوں تک کو نشانہ بنانے جیسے جرائم میں ملوث ہے ان مظالم کے خلاف آواز بلند کرنے پر ہی ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور دیگر قائدین کو نشانہ بنایا گیا۔
قیادت کی گرفتاری اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاست پاکستان بلوچ عوام کی پرامن اور جمہوری جدوجہد سے خوفزدہ ہے۔
بی وائی سی کا کہنا تھا کہ عدلیہ نے بھی ان پانچ ماہ کے دوران اپنی جانبداری کو عیاں کردیا ہے آج تک نہ تو کسی رہنما کے خلاف کوئی ثبوت پیش کیا گیا ہے نہ ہی ریاستی الزامات ثابت ہو سکے ہیں اس کے باوجود نہ رہائی دی جا رہی ہے نہ ہی کوئی شفاف عدالتی عمل اپنایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا عدالتیں محض ریاستی خفیہ اداروں کے اشاروں پر عمل کر رہی ہیں جس سے عدلیہ انصاف کی محافظ کے بجائے ریاستی جبر کا ایک اوزار بن چکی ہے۔
تنظیم کے مطابق ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور ان کے ساتھی قید میں بھی استقامت اور مزاحمت کی علامت بنے ہوئے ہیں ان کی گرفتاری نے بلوچ عوام کے حوصلے کو کمزور نہیں کیا بلکہ مزید مضبوط کیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی بدترین کریک ڈاؤن اور ریاستی جبر کے باوجود بلوچستان میں درندگی اور بلوچ نسل کشی کے خلاف جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے اور بلوچ عوام کو منظم و متحرک کررہی ہے۔
آخر میں بی وائی سی نے عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کی ہے کہ وہ پاکستان کے ان جرائم پر خاموش نہ رہیں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور دیگر قیادت کی گرفتاری صرف بلوچستان کا مسئلہ نہیں بلکہ انسانی حقوق اور عالمی انصاف کی جدوجہد کا مسئلہ ہے اگر دنیا نے اس جبر پر خاموشی اختیار کی تو یہ ظلم مزید بڑھے گا۔