شہید نواب اکبر خان بگٹی نے ثابت کیا کہ سیاست صرف اقتدار کا کھیل نہیں بلکہ اصول، وقار اور قربانی کا نام ہے۔ این ڈی پی

1

نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے ترجمان نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ این ڈی پی شہید نواب اکبر خان بگٹی کو ان کی برسی پر بھرپور خراجِ عقیدت پیش کرتی ہے اور انہیں بلوچ قومی شعور اور مزاحمت کی عظیم علامت قرار دیتی ہے۔ نواب بگٹی نے اپنی پوری سیاسی زندگی بلوچ عوام کے حقِ خود ارادیت، وسائل پر اختیار اور قومی وقار کے لیے وقف کی۔ وہ محض ایک قبائلی سردار نہیں تھے بلکہ ایک ایسے رہنما تھے جنہوں نے اصولوں کی بنیاد پر سیاست کی نئی مثالیں قائم کیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی حق خوداریت، بلوچوں کی حق حاکمیت اور سائل وسائل پراختیار کا حق نواب بگٹی کی سیاست کا بنیادی مقصد تھا جس کے لیے انہوں نے مختلف ذرائع استعمال کیے۔ 1947 سے قبل ہی وہ سیاست میں قدم رکھ چکے تھے اور اگلے دو دہائیوں تک کئی مرتبہ جیل و زندانوں کے صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ ون یونٹ کے دور سے لے کر ون یونٹ کے خاتمے تک انکا کردار اہم رہا ہے جبکہ تقسیم بنگال سے قبل شیخ مجیب الرحمن سے ملاقات کے دوران بلوچستان کی حق خوداریت اور ساحل و وسائل پر اختیار کا مؤقف انکی سیاسی مقصد کو واضح کرتا ہے مگر اسکے بعد انکی ساتھیوں سے دوری، بے یقینی صورتحال اور غیروں کی سازشوں نے نواب اکبر بگٹی کی بلوچ صفت شخصیت کو مجبور کیا کہ وہ اپنے ساتھیوں سے ٹکر لینے کا فیصلہ کریں مگر جلد ہی انہیں احساس ہوا کہ یہ عمل بلوچ قومی مفاد کا حد درجہ نقصان پہنچا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ ایک علم دوست اور فکری سیاسی رہنما تھے، تاریخ اور سیاست پر گہری نظر رکھتے تھے، اور ان کی گفتگو ہمیشہ بصیرت افروز حوالوں سے مزین ہوتی تھی۔ انہوں نے بگٹی ڈوزئیر میں بلوچ قومی معیشت اور ساحل و وسائل کے حوالے سے جامع خاکہ پیش کیا۔ ذاتی زندگی میں اصول پسندی ان کی شخصیت کا نمایاں پہلو تھی جو ان کے سیاسی فیصلوں میں جھلکتی تھی۔ وہ سخت گفتار مگر نرم دل انسان تھے، مگر جب قومی وقار اور اصولوں کی بات آتی تو وہ فولاد کی طرح ڈٹ جاتے۔ انہوں نے کئی موقعوں پر براہ راست ریاستی اداروں سے ٹکر لے کر بلوچوں کی حقوق کی حفاظت کی جبکہ ڈاکٹر شازیہ خالد زیادتی کیس نے، دوسرے عوامل سمیت، انہیں حکمرانوں اور فوج کے براہ راست بمقابل کھڑا کر دیا۔ جب ریاست نے اس کیس میں بلوچ کوڈ آف کنڈکٹ کا احترام کرنے کے بجائے ایک استعمار کا طرز اپنا یا اور بلوچستان کے وسائل پر مزید قدغنیں لگائیں تو نواب بگٹی نے مزاحمت کا راستہ اپنایا۔ انہیں بخوبی علم تھا کہ یہ راستہ ان کی جان لے سکتا ہے، لیکن انہوں نے جھکنے کے بجائے ڈٹ جانے کو ترجیح دی۔ بالآخر 26 اگست 2006 کو کوہلو کے پہاڑوں میں ریاستی طاقت نے انہیں شہید کیا۔ لیکن ان کی شہادت نے بلوچ قومی تحریک کو دبانے کے بجائے نئی توانائی بخشی اور انہیں ایک استعارے میں بدل دیا۔

انہوں نے کہا کہ نواب بگٹی کی زندگی اور شہادت آج بلوچ نوجوانوں،طلبہ اور خواتین کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ سیاست صرف اقتدار کا کھیل نہیں بلکہ اصول، وقار اور قربانی کا نام ہے۔ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی ان کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے پرعزم ہے اور یہ عہد کرتی ہے کہ شہید نواب بگٹی کا پیغام نئی نسل تک پہنچایا جائے گا۔ نواب اکبر خان بگٹی محض ایک فرد نہیں بلکہ ایک فکری علامت ہیں۔ ان کی قربانی ہمیشہ بلوچ عوام کو یاد دلاتی رہے گی کہ آزادی اور عزت صرف قربانی اور مزاحمت سے حاصل ہوتی ہے۔