شہید جبار فخر کی پہچان، قربانی کا درس – گُل شیر منیر

23

شہید جبار فخر کی پہچان، قربانی کا درس

تحریر: گُل شیر منیر

دی بلوچستان پوسٹ

شہید جبار جان عرف اسد بلوچ سے میری پہلی ملاقات تقریباً پانچ سال قبل ایک تنظیمی ساتھی کے ذریعے ہوئی۔ یہ رابطہ طویل عرصے تک جاری رہا۔ ایک روز لیفٹیننٹ جبار جان نے مجھ سے کہا کہ وہ اب شہر میں مزید نہیں رہ سکتا اور ٹریننگ کے لیے اوتاک جانا چاہتا ہے۔ میں نے یہ بات بولان کے ریجنل کمانڈر تک پہنچائی اور تفصیلی مشاورت کے بعد فیصلہ ہوا کہ جبار جان کو وہاں سے بولان روانہ کیا جائے۔ جبار پہلے ہی ذہنی و جسمانی طور پر تیار تھا اور اوتاک جانے کا بندوبست کرچکا تھا۔

جب جبار جان اوتاک پہنچا تو ریجنل کمانڈر نے بتایا کہ وہ چند روز بنیادی تربیت مکمل کرنے کے بعد اسے واپس بھیج دیں گے، اور اس فیصلے سے جبار نے بھی اتفاق کیا۔ تربیت کے بعد جب جبار جان کچھ عرصے کے لیے تمپ واپس آیا تو تنظیمی فیصلے کے تحت اُسے مکران ریجن میں ذمہ داریاں سونپ دی گئیں۔

اس دوران مجھے معلوم ہوئی کہ جبار جان نے مکران ریجن میں متعدد اہم جنگی معرکوں میں حصہ لیا، جن میں بلوچستان لبریشن فرنٹ کے (آپریشن بام) اور مند مستونگ میں فوجی چوکی پر قبضے کی کارروائی شامل تھی۔ وہ ہر وقت تنظیمی امور میں سرگرم رہتا اور ہر نئے دن ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ دشمن کو شہر کے اندر نشانہ بنانے کے لیے کوشاں رہتا۔ جبار جان بلاشبہ ایک نڈر گوریلا سرمچار تھا، جس نے اپنی زندگی تنظیمی جدوجہد کے لیے وقف کر دی۔

شہید جبار جان نے گوریلا اربن وار کی اہمیت کو ہمیشہ مدنظر رکھا۔ اس نے شہروں کے اندر کارروائیاں کرتے ہوئے تمپ اور گردونواح میں تنظیمی ڈھانچے کو مزید مضبوط اور متحرک بنایا۔ اس کے پاس معلومات اکٹھی کرنے کا ایک فطری اور موثر طریقہ موجود تھا، جو تنظیمی منصوبہ بندی اور کارروائیوں کے لیے نہایت معاون ثابت ہوا۔

ایک گوریلا سرمچار کا سب سے بڑا ہتھیار اس کی ذہانت اور حکمت عملی ہوتی ہے۔ بندوق تو ہر کسی کے پاس ہوسکتی ہے، لیکن فکری اور نظریاتی پختگی ہر ایک کو میسر نہیں ہوتی۔ اسد بلوچ نے اپنی ذاتی زندگی اور کاروبار کو پسِ پشت ڈال کر غلامی کا احساس کیا اور آزادی کی جدوجہد کے لیے تمپ سے نکل کر بولان، مستونگ، تربت، کلبر، سائیجی اور مزنبند کے محاذوں پر اپنا قیمتی وقت وقف کر دیا۔

ایسے نوجوان قوم کی خدمت کے لیے ہر محاذ پر قربانی دینے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ ہم ان کی قربانیوں کو کبھی مایوسی، چیخ و پکار یا ماتم کا سبب نہیں بننے دیتے، بلکہ وہ دن روز روشن سے عیاں ہے جب ہر بلوچ فخر کے ساتھ اپنا سر بلند کرے گا اور ہر گھر سے ایک نڈر اور بے خوف جبار کی ولادت ہوگی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔