خضدار کا علاقہ زہری گذشتہ دس روز سے بلوچ آزادی پسندوں کے کنٹرول میں ہے، مختلف مقامات پر پاکستانی فوج کو شدید نوعیت کے حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
گیارہ اگست کو بلوچ آزادی پسندوں نے زہری شہر میں اجتماع سے خطاب کیا جبکہ علاقے میں پیش قدمی کی کوشش کرنے والے فوجی قافلوں کو مختلف مقامات پر حملوں میں نشانہ بنایا گیا۔
علاقائی ذرائع نے ٹی بی پی کو بتایا کہ سرمچاروں نے منصوبہ بندی کے تحت داخلی راستوں پر گھات لگایا جبکہ سنی تا نورگامہ سمیت دیگر مقامات پر روڈ کو بلڈوز کیا گیا۔
فورسز کو گزان اور مشک سمیت دیگر مقام پر حملوں میں نشانہ بنایا گیا جبکہ گزان سینکوری کے مقام پر فورسز پر حملے و چھ اہلکاروں کے زخمی ہونے کی تصدیق حکام نے کی ہے۔
سوشل میڈیا پر مختلف ویڈیو کلپس میں پاکستانی فوج کی تباہ ہونے والی گاڑیاں اور فوجی اہلکاروں کے وردی و دیگر سامان شاہراہ پر پڑے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔ علاقائی ذرائع کے مطابق علاقہ تاحال بلوچ آزادی پسندوں کے کنٹرول میں ہے۔
دریں اثناء انجیرہ آر سی ڈی کراس پر فورسز نے شاہراہ کو آمد و رفت کیلئے بند کردیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ فورسز نے زہری جانے والے دو نوجوانوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد اپنے ہمراہ لے جانے کی کوشش کی تاہم مسافروں کی مزاحمت پر فورسز نوجوانوں کو لیجانے میں ناکام ہوگئے۔
حکام نے تاحال اس حوالے سے کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی ہے جبکہ علاقے میں انٹرنیٹ سروس بدستور بند ہے۔
خیال رہے رواں سال کے آغاز میں بلوچ مسلح آزادی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے زہری شہر کو کئی گھنٹوں تک اپنے کنٹرول میں تھا۔ اس دوران سرمچاروں نے لیویز و پولیس تھانوں سمیت سرکاری دفاتر و بینکوں کو بھی اپنے کنٹرول میں لیکر اہلکاروں کا اسلحہ و گاڑیوں کو اپنے تحویل میں لیا تھا۔
اسی نوعیت کی کاروائیوں میں بلوچ لبریشن آرمی قلات کے شہر منگچر اور سوراب شہر کو گھنٹوں کنٹرول میں لے چکی ہے۔
گذشتہ سال اگست کے مہینے میں بلوچ لبریشن آرمی نے ‘آپریشن ہیروف’ کے تحت بلوچستان بھر میں مربوط کاروائیاں کرتے ہوئے چودہ اضلاع میں مرکزی شاہراہوں سمیت لیویز و پولیس تھانوں کا کنٹرول حاصل کیا۔ اس آپریشن کے تحت بیلہ میں پاکستان فوج کے ہیڈکوارٹر کو بھی بی ایل اے مجید برگیڈ نے حملے میں نشانہ بناکر ہیڈکوارٹر کا کنٹرول حاصل کیا۔