کراچی 25 سالہ بلوچ طالبعلم زاہد علی کی جبری گمشدگی کے خلاف کراچی پریس کلب کے باہر احتجاجی کیمپ جمعہ کے روز مسلسل چوتھے دن بھی جاری رہا۔
زاہد کا تعلق کراچی کے علاقے لیاری سے ہے اور وہ جامعہ کراچی میں بین الاقوامی تعلقات کے شعبے کا طالبعلم ہے۔
خاندان کا کہنا ہے کہ زاہد کو 17 جولائی 2025 کو شام ساڑھے پانچ بجے کے قریب اس وقت فورسز اداروں کے اہلکاروں نے تحویل میں لیا جب وہ سواری کے انتظار میں اپنے رکشے کے ساتھ کھڑا تھا، گرفتاری کے بعد نہ تو اس کی گرفتاری ظاہر کی گئی اور نہ ہی کسی ادارے نے اس کی موجودگی کی تصدیق کی۔
انہوں نے کہا آج زاہد کی جبری گمشدگی کو 23 دن ہو چکے ہیں لیکن اس کے بارے میں کوئی اطلاع فراہم نہیں کی گئی۔
لواحقین کا کہنا تھا کہ زاہد نہ صرف اپنی تعلیم کا بوجھ خود اٹھاتا تھا بلکہ رکشہ چلا کر اپنے خاندان کی مالی مدد بھی کرتا تھا، اس کے والد عبدالحمید جو طویل عرصے سے ہیپاٹائٹس کے مریض ہیں بیٹے کی آمدنی پر انحصار کرتے تھے۔
احتجاجی کیمپ میں زاہد کے والدین، قریبی رشتہ داروں کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن، طلبہ اور شہریوں کی بڑی تعداد شریک ہو رہی ہے۔
مظاہرین نے پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے ہیں جن پر لکھا ہے زاہد کو بازیاب کرو” طلبہ کو لاپتہ کرنا بند کرو” جبری لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کرو یا رہا کرو۔
اس موقع پر جبری لاپتہ زاہد علی کے والد نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا میرا بیٹا ایک محنتی طالبعلم ہے، اس پر اگر کوئی الزام ہے تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے اگر بے گناہ ہے تو فوری طور پر رہا کیا جائے۔
اہلِ خانہ کا مؤقف ہے کہ جب تک زاہد کو بازیاب نہیں کرایا جاتا ان کا احتجاجی کیمپ روزانہ کی بنیاد پر جاری رہے گا۔
انہوں نے انسانی حقوق کی تنظیموں، عدلیہ، صحافیوں اور تمام باشعور افراد سے اپیل کی کہ زاہد سمیت تمام لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے آواز بلند کریں۔