دنیا مفاد پرستوں کے نرغے میں – شَنکو بلوچ

129

دنیا—مفاد پرستوں کے نرغے میں

تحریر: شَنکو بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیا مفادات پر قائم ہے۔ رشتے، تعلقات، پالیسیاں اور دعوے سب مفادات کے تابع ہوتے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کے تحفظ کے دعویداروں کے اپنے اپنے تحفظات اور مفادات ہوتے ہیں، وگرنہ بلوچستان سمیت دنیا بھر کے مظلوموں کی پکار پر لبیک کہہ کر وہ اپنی دعویداری کا عملی ثبوت دیتے اور ان مظلوموں کے حامی و ناصر بنتے۔

اگر مفاد پرستی کی عینک اتاری جاتی تو بلوچستان کے ستم رسیدہ عوام کی صدائیں بہرے کانوں تک ضرور پہنچتیں۔ انصاف اور انسانی اقدار کے دعویدار اُس وقت کہاں ہوتے ہیں جب شہید احسان شاہ بلوچ کو ناحق قتل کیا جاتا ہے؟ اور ان کی ماں کو، جن کی آنکھیں انصاف کی امید میں برسوں سے نم ہیں، کبھی جیل، کبھی پریس کلب، تو کبھی ننگی سڑکوں پر دھمکایا اور ذلیل کیا جاتا ہے؟

اسلام آباد میں 33 دن سے زائد بلوچ مائیں، بہنیں اور بچے اغیار کے نرغے میں مظلومیت کی داستان لیے بیٹھے ہیں، لیکن اقوام متحدہ، عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں اور دیگر عالمی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ کیوں؟ کیا اس لیے کہ بلوچ قوم نہ کسی بڑی طاقت کو مراعات دے سکتی ہے، نہ ہی ان کے مفادات کی تکمیل کا ذریعہ بن سکتی ہے؟ یا پھر اس لیے کہ ان معصوم چہروں کو، جو غم میں بھی مسکراتے ہیں اور بارش میں آنسو بہاتے ہیں، انسان ہی نہیں سمجھا جاتا؟

سچ پوچھیے تو قومی و بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں، گروہ اور امریکہ جیسے طاقت ور ممالک، مفاد کے سوا کچھ نہیں دیکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطین میں جاری ظلم پر وہ خاموش ہیں کیونکہ اسرائیل ایک بڑی طاقت ہے، اور بلوچستان میں ہونے والے مظالم پر اس لیے خاموش ہیں کہ بلوچ قوم انہیں کچھ بھی نہیں دے سکتی—سوائے ایک درد بھری پکار کے کہ: ’’آئیے، اور ہماری نسل کو قابض ظلم کے پنجوں سے نجات دلانے میں مدد کیجیے!‘‘

بلوچستان، جو ایک نوآبادیاتی نظام کی گرفت میں ہے، وہاں نہ آزادانہ صحافت ممکن ہے، نہ ہی کوئی مؤثر پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا موجود ہے جو دنیا کو اس خطے کی صورتحال سے آگاہ کر سکے۔ پاکستانی میڈیا نے کبھی بلوچ مسئلے کو اجاگر نہیں کیا، نہ ہی یہاں ہونے والے مظالم پر زبان کھولی۔

ایسی صورت میں انسانی حقوق کے عالمی علمبرداروں، تنظیموں اور اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ خود بلوچستان کے حالات کا جائزہ لیں اور مظلوم قوم کی آواز بنیں۔ لیکن ایسا کبھی ہوتا دکھائی نہیں دیتا، کیونکہ دنیا نے وہی سنا جو پنجابی میڈیا نے بتایا، جو کہ بلوچستان کے بارے میں سچ کم اور جھوٹ زیادہ بولتا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ، انٹرنیشنل فیڈریشن فار ہیومن رائٹس، فور فرنٹ ڈیفینڈرز اور انٹرنیشنل کمیشن آف جسٹس جیسے ادارے کہاں ہوتے ہیں جب ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ اور دیگر سماجی کارکنوں کو غیر قانونی طور پر حراست میں لیا جاتا ہے؟ اور فیصلے سنانے والے جج، ایک تیار شدہ اسکرپٹ پڑھ کر سزا کا اعلان کرتے ہیں؟

یہ تمام تنظیمیں کہاں گم ہوجاتی ہیں جب اسلام آباد کی سڑکوں پر بلوچ مائیں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے آنکھوں میں آنسو لیے ذلت و رسوائی جھیل رہی ہوتی ہیں؟
کہاں چلے جاتے ہیں انسانی حقوق کے دعوے جب کئی دنوں پرانی لاشیں سڑک کنارے یا ویرانوں سے ملتی ہیں اور نامعلوم قبروں میں دفنا دی جاتی ہیں؟

بلوچستان کی اس لرزہ خیز صورتحال پر عالمی برادری اور انسانی حقوق کے اداروں کی خاموشی، ان کی مفاد پرستی اور کھوکھلے دعووں کا پردہ چاک کرتی ہے۔ بصورت دیگر، اکیسویں صدی میں اس طرح کی انسانی المیہ پر خاموشی کسی طور “مصلحت” نہیں کہلا سکتی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔