داستانِ جنگ، کہانیِ اسکلکو، قصہِ بلوچ خان – ہارون بلوچ

238

داستانِ جنگ، کہانیِ اسکلکو، قصہِ بلوچ خان

تحریر: ہارون بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

گھنٹوں سفر کے بعد وہ کیمپ کے عین سامنے، دشمن کی چیک پوسٹ کے بالکل برابر آ چکا تھا۔ چاروں طرف گہرے سائے پھیلے ہوئے تھے، جیسے رات کی گہرائی نے سب کچھ نگل لیا ہو۔ کچھ دور ایک مدھم سی روشنی دیکھنے کو مل رہی تھی۔ چند لمحے وہ دور روشنی کو دیکھتے دیکھتے ایک خیال میں کھو گیا، پھر اچانک دشمن کی طرف دیکھنے لگا جو اس وقت بالکل بے خوف، اپنی دنیا میں مگن، سکون کی سانسیں لے رہا تھا۔ گزشتہ کئی دنوں سے وہ اور اُس کے ساتھی دشمن کے ایک اہم اور اسٹریٹیجک طور پر مضبوط کیمپ کو حملے میں تباہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ اس سلسلے میں جذباتی فیصلہ لینے اور حملہ کرنے کے بجائے کئی دنوں تک انہوں نے پلاننگ کی، ہر چھوٹے بڑے معاملے کو دیکھا، نقصان، فائدہ، وسائل سب چیزوں کا اچھی طرح جائزہ لیا گیا۔

دشمن کا کیمپ ایک وسیع پیمانے پر پھیلا ہوا تھا اور چند ساتھیوں کے ساتھ اس کو گھیرنا اور تباہ کرنا مشکل تھا، اس لیے انہوں نے اس منصوبے کے لیے درجنوں ساتھیوں کو اکٹھا کیا چونکہ صرف ساتھی بھی کسی فتح کے تمام اجزاء نہیں ہوتے، اس لیے انہوں نے کئی دنوں تک حملے کے لیے درکار وسائل کو یکجا کرنے اور جمع کرنے پر دن رات لگایا۔ کئی دنوں کی محنت کے بعد ساتھیوں نے حملے کے لیے ضروری وسائل کا بندوبست کیا۔ پھر چند ساتھیوں نے دشمن کے کیمپ کی تمام ریکی کی تھی۔ کہاں، کیسے، کب، کس طرح حملہ کرنا مناسب ہوگا، دشمن کی طاقت، تعداد، وسائل کیا ہیں، سب چیزوں کا اچھے طریقے سے اندازہ لگایا گیا۔ یہ کیمپ اپنی نوعیت میں اتنا بڑا تھا کہ اس پر قبضہ لگانا کچھ حد تک ناممکن لگ رہا تھا۔ چاروں اطراف میں فوج کے چیک پوسٹ پہاڑی چوٹیوں کے اوپر لگائے گئے تھے۔ دشمن کے پاس سرونئلنس کیمرے تھے جو ہر وقت ساتھیوں کی نگرانی کے لیے لگائے گئے تھے۔ لیکن انہوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ دشمن کے اہم اور مضبوط حصاروں کو توڑنے کا وقت آ گیا ہے اور جب تک دشمن کے مضبوط اور طاقت ور قلعوں کو نشانہ بنا کر تباہ نہیں کیا جائے گا، اس وقت تک دشمن مطمئن رہے گا۔ اب جنگ کے میدان میں بلوچ خان سمیت تمام ساتھی اس بات پر متفق ہو چکے تھے کہ ہمیں دشمن کے خلاف سخت ترین ضرب لگانے پر محنت کرنی چاہیے اور اس کے لیے ہر طرح کے اقدامات اٹھانے چاہیے۔ وہ جانتے تھے کہ جنگ کے میدان میں ہمیں بھی نقصانات اٹھانے ہوں گے، لیکن وہ ہر طرح کے ردعمل کے لیے ذہنی طور پر تیار تھے۔ اب وقت آچکا تھا کہ دشمن کے لیے قیامت کا منظر پیدا کرے۔ ہر ساتھی کسی نہ کسی طرح سر پر کفن باندھ کر حملے میں شامل ہو چکا تھا، کسی کو بھی پتا نہیں تھا کہ آگے کیا ہوگا۔ کمانڈر ہر گھنٹے بعد اپنے نقصانات کا سوچ کر کچھ گہرا سوچنے لگ جاتا، کیا ہم جلد بازی نہیں کر رہے؟ کیا یہ حالات حملے کے لیے موزوں ہیں؟ کیا یہ تعداد کے ساتھ دشمن کے کیمپ پر قبضہ کرنا ممکن ہو سکتا ہے؟ یہ سوالات وہ خود سے بار بار کر لیتا، پھر ساتھیوں کی میٹنگ بلائی جاتی، ان سے مشورہ کر لیتا، ان کا حوصلہ دیکھتا، لڑنے اور دشمن پر کاری ضرب لگانے کی جستجو دیکھ لیتا اور پھر مطمئن ہو جاتا کہ اس مضبوط اور طاقت ور مورال کے ساتھ ہم ہر حالت میں دشمن کو شکست دے سکتے ہیں۔ ساتھیوں کا جذبہ، حوصلہ، اور دشمن پر ٹوٹ پڑنے کی کیفیت دیکھ کر کمانڈر کو پھر اپنی کامیابی پر یقین ہونے لگتا۔ اس فوجی مہم میں ساتھیوں کو بولان سے لیکر شور تک تمام ساتھیوں کی کمک حاصل تھی، درجنوں ساتھی سرمچار اکٹھا ہو گئے تھے، اور ہر کسی کے دل میں انتظار کی گھڑی بج رہی تھی کہ کب بلاوا آئے گا اور ساتھی دشمن کی جانب پیش قدمی کرنا شروع کر دیں گے۔

یہ لمحہ ہمارے لیے شاید صرف ایک فوجی مہم یا عام سی جنگی کارروائی ہو، مگر بلوچ خان اور اس کے ساتھیوں کے لیے یہ ایک فوجی مہم اور کارروائی سے بڑھ کر تھا۔ ان کے ذہن میں صرف ایک فوجی حملہ یا کارروائی نہیں بلکہ ایک طویل جنگ کے آغاز کی تیاری تھی۔ انہوں نے ارادہ کر لیا تھا کہ دشمن پر ایسی ضرب لگائی جائے جو پورے علاقے میں دشمن کی بنیادیں ہلا دے اور ایک ایسی خوف دشمن کے دل میں پیدا ہو جس سے وہ یہاں رہنے کی غلطی ترک کر دے۔ وہ فوجی مہم سے بڑھ کر سوچ رہے تھے، ساتھیوں کو ایک ایسی جنگ کے لیے تیار کرنے کی کوشش کر رہے تھے جو آنے والے دنوں میں آپریشن ہیروف اور درہ بولان 2.0 جیسے بڑے فوجی مہمات کی صورت میں دشمن پر عبرتناک ضربیں لگانے کی صورت میں ہمارے سامنے آنے والے تھے۔ وہ ساتھیوں کے دل سے دشمن کے خوف کا خاتمہ کرتے ہوئے دشمن کو اس کی اپنی طاقت کے سراب سے باہر لا کر حقیقت دکھائی جائے۔ وہ دشمن کو زمین میں گاڑ کر اسے ایک ایسی عبرتناک شکست دینا چاہتے تھے تاکہ کوئی بھی فوجی رات کو آنکھیں بند کرکے آرام نہ کر سکے۔ وہ دشمن کی جانب سے بلوچ ماؤں اور بہنوں پر جبر و وحشت کے خوفناک مناظر کو دشمن کی چیک میں بدلنا چاہتے تھے۔ وہ کوئی روایتی گوریلا حملے کی منصوبہ بندی نہیں کر رہے تھے بلکہ اندازہ سینکڑوں سپاہیوں کی موجودگی والے کیمپ پر قبضہ کرنے کا فیصلہ کر رہے تھے۔ ایک ایسے کیمپ پر قبضہ کرنے کا فیصلہ جو چاروں اطراف میں بند ہے اور اسے بلند اور لمبی پہاڑی چوٹیوں کی شکل میں قدرتی طور پر مضبوط سیکورٹی زون مل چکا ہے جبکہ فوجیوں کے پاس بہترین اور طاقتور ترین ہتھیار موجود ہیں۔ بلوچ جنگ گزشتہ کئی دہائیوں تک گوریلا طرز پر چلتی آ رہی ہے اور اس کو کنونشنل وار کی شکل میں منظم کرنے کا فیصلہ اب یہی نوجوان کر رہے ہیں۔ وہ دشمن کو جگانے کا منصوبہ نہیں بنا رہے بلکہ ان کے سیکورٹی حصار کے خاتمے کی پلاننگ بنا رہے ہیں، دشمن کے سیکورٹی حصار کو تباہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں اور وہاں پر اپنی فتح کا جھنڈا لہرانا چاہتے تھے۔

کمانڈرز نے ایک مرتبہ پھر ساتھیوں کو بلایا اور ان سے وسائل اور ساتھیوں کے مورال کے حوالے سے جانچ پڑتال کی۔ انہوں نے فوجی وسائل کے متعلق گفتگو کی۔ اس وقت ساتھیوں کے پاس وہ تمام بنیادی فوجی مڈّی (ساز و سامان) موجود تھا جن میں گولیاں، ایم فور اور ایم سولہ جیسے بہترین ہتھیار، گرنیڈ لانچر، سکیل (ایل ایم جی مشین گن)، اور رات کے وقت استعمال ہونے والے انتہائی جدید ہتھیار، مثلاً تھرمل کی سہولت موجود تھی۔ ساتھی دشمن کو ایک بہترین جنگ دینے کی مکمل تیاری کر چکے تھے۔ اس پورے آپریشن کو پلان کرتے ہوئے ساتھیوں کو تقریباً ایک مہینہ گزر چکا تھا اور سب تیاری مکمل ہونے کے بعد کمانڈرز نے مل بیٹھ کر ایک مرتبہ پھر حملے کی تیاری کو لیکر مشاورت شروع کی، جس میں ساتھیوں کی پوزیشنز اور ان کی ٹیمیں تشکیل دی گئیں جبکہ حملے کے وقت کن مسائل اور مشکلات سے گزرنا پڑ سکتا ہے، ان تمام معاملات اور ان گنجائشوں پر گفتگو کی گئی جو جنگ کے دوران پیش آ سکتی تھیں۔ جنگ کے دوران پیشگی تیاری انتہائی اہم ہوتی ہے۔ پیشگی بہترین تیاری مکمل ہونے کا مطلب ہے کہ آپ دشمن سے ایک قدم آگے ہیں۔ بلوچ خان، رحیم اور حمل سمیت تمام ساتھیوں کو اس بات کا اچھی طرح علم تھا کہ بہترین تیاری جنگ کے بہترین اختتام کی بنیاد ہے، اس لیے انہوں نے دشمن کے ردعمل کے تمام آپشنز دیکھ لیے تھے، جن میں ساتھیوں کی شہادت کا واقعہ، دشمن کا پیشگی اطلاع ہونا، دشمن کے لیے ہوائی سپورٹ، اور علاقے کے نزدیک دیگر کیمپس سے آنے والی کمک شامل تھی۔ ان تمام آپشنز کو بغور جائزہ لیا گیا اور ان کے مطابق الگ تیاری اور فیصلے کیے گئے اور ساتھیوں کو ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا گیا۔

اب وقت آ چکا تھا کہ دشمن کی جانب پیش قدمی کی جائے۔ کمانڈر نے تمام ساتھیوں کو یکجا کیا، آپریشن کی پلاننگ سے ساتھیوں کو آگاہ کیا گیا، دشمن کے کیمپ کا ایک خاکہ تیار کیا گیا اور وہ ساتھی جنہوں نے ریکی کی تھی، انہیں کہا گیا کہ ساتھیوں کو کیمپ کی پوزیشنز کے حوالے سے بریفنگ دے۔ بریفنگ میں کمانڈر نے سب سے پہلے ساتھیوں کو اپنے آپریشن کے مقاصد سے آگاہ کیا۔ اس کے بعد ساتھیوں کو دشمن کی پوزیشنز کے حوالے سے معلومات دی گئیں، مثلاً فوجی کن کن مقامات پر تعینات ہیں اور ان کے مضبوط و کمزور پوزیشن کون سے ہیں، دشمن کے کتنے اہلکار کیمپ میں موجود ہو سکتے ہیں، ان کے ہتھیار کیا ہیں، گارڈنگ سسٹم کیسا ہے، چوکیاں کہاں ہیں، اور دشمن کے فرار ہونے والے راستے بھی بیان کیے گئے۔ اس کے بعد اپنی پوزیشن، تعداد، ہتھیار، ان کی مقدار اور دیگر تفصیلات فراہم کی گئیں۔ پھر بتایا گیا کہ کون سا یونٹ کس ذمہ داری پر ہوگا، جیسے حملہ آور دستہ، فائر سپورٹ، ریزرو یا انخلاء ٹیم۔ سب کچھ تیار کیا گیا۔ اس کے بعد حملے کے قدم بہ قدم تفصیلات بیان کی گئیں کہ حملہ کب، کیسے، کس یونٹ اور کس چوکی سے شروع کرنا ہے۔ سب کو فوجی ذمہ داریوں کے حوالے سے بریفنگ دی گئی اور آخر میں ساتھی سرمچاروں نے سوالات کیے اور اپنے اپنے کنفیوژن حل کیے۔

اگلی صبح ساتھی اپنے منزل کی جانب نکل پڑے۔ چونکہ ساتھیوں کی تعداد درجنوں میں تھی جبکہ دشمن کا کیمپ ایک وسیع پیمانے پر پھیلا ہوا تھا اور زمینی راستہ انتہائی لمبا ہونے کی وجہ سے پیدل سفر کرتے ہوئے دشمن کی نظروں میں آنے کا خطرہ تھا، اس لیے ساتھیوں نے ایک پکنک پوائنٹ کی جانب پیش قدمی کی جہاں سینکڑوں کی تعداد میں لوگ جمع ہوئے۔ عوام سے دشمن کی جانب پیش قدمی کے لیے سواریوں کی طلب کی گئی تاکہ وہ جلد از جلد اپنے منزل تک پہنچ سکیں۔ عوام نے بھی انتہائی پرجوش انداز میں ساتھیوں کا خیرمقدم کیا، جہاں انہوں نے سرمچاروں کو عزت و احترام دیا، سرمچاروں کے خطاب سنے، اور حملے کے لیے اپنے سواری دیے۔ ان لوگوں نے ساتھیوں کو علاقے کے قریب پہنچانے میں کردار ادا کیا، سب ساتھیوں کو کیمپ کے نزدیک پہنچانے میں مدد دی، اور پھر اپنے گھروں کی جانب روانہ ہو گئے اور انتظار کرنے لگے کہ کب بلوچ سرمچار دشمن کے کیمپ پر شدید حملہ کریں گے۔ وہی دشمن جو ہر روز ان کی تذلیل کرتا ہے، ان کے گھروں میں گھستا ہے اور قومی جذبات کو مجروح کرتا ہے، صرف انہیں اس بات کی سزا دی جاتی ہے کہ وہ بلوچ ہیں۔ عوام کے جوش و جذبے کو دیکھ کر ساتھی مزید بیدار اور دشمن پر حملہ آور ہونے کے لیے زیادہ بیتاب ہو گئے۔

تقریباً شام کا وقت ہو رہا تھا، کمانڈرز کی ہدایت پر ساتھی اسی وقت کیمپ کے قریب پہنچ چکے تھے اور حملے کے لیے تیار کھڑے تھے۔ کیمپ کے نزدیک پہنچ کر ساتھی چار گروپوں میں تقسیم ہو گئے، جبکہ بلوچ خان خود آگے فرنٹ لائن پر کھڑا دشمن کے اہلکاروں پر گہری نظر رکھے ہوئے تھا اور سب سے پہلے دشمن کے مرکزی چوکی کو نشانہ بنانے کی تیاری شروع کی اور اس کے قریب پہنچ گیا۔ فیصلہ ہو چکا تھا کہ جب چاروں گروپس اپنے مطلوبہ پوزیشنز پر پہنچ جائیں گے تو ایک ساتھ دشمن پر حملہ کر دیا جائے گا۔ اس وقت ہر ساتھی اپنی اپنی پوزیشنز سنبھال رہا تھا۔ بلوچ خان سب سے پہلے اپنے پوزیشنز پر ساتھیوں سمیت پہنچ چکا تھا، قریب پہنچ کر انہوں نے ساتھیوں کو پوزیشن سنبھالنے کا کہا اور خود مزید آگے جا کر دشمن کو قریب سے حملہ کرنے کا منصوبہ بنا رہا تھا۔ وہ دشمن کی حرکات پر گہری نظر رکھ رہا تھا اور ساتھ ساتھ ساتھیوں کو ڈائریکشن دے رہا تھا۔ وہ باتوں کا نہیں، بلکہ عملی میدان میں قیادت کا فریضہ انجام دے رہا تھا۔ ذمہ داری کے ساتھ بہادری اور ایمانداری اس کے کردار کی پہچان تھی۔ وہ دشمن کے بالکل سامنے کھڑا تھا اور انتظار کر رہا تھا کہ کب دیگر ساتھی اپنے پوزیشنز پر پہنچ جائیں گے اور وہ دشمن پر حملہ شروع کر دیں گے۔

تبھی دشمن نے اس کے قدموں کی چاپ سن کر حرکت کی اور بڑی چالاکی سے دشمن کے دو اہلکار پیش قدمی کرنے لگے۔ بلوچ خان نے دشمن کی حرکت کو جلدی سے بھانپ لیا۔ انہوں نے وائرلیس سیٹ کے ذریعے ساتھیوں کو پیغام دیا کہ دشمن نے ہماری موجودگی کا احساس کر لیا ہے، اس لیے جلدی اپنی پوزیشنز سنبھال لو۔ چند سیکنڈ بعد دشمن کے اہلکار چلانے لگے: “کون ہے وہاں؟ بتاؤ ورنہ گولی چلا دیں گے!” وہ بالکل دشمن کے سامنے تھا اور واپسی کی گنجائش نہیں تھی، اس لیے جلدی سے پوزیشن لے لی، لیکن پھر بھی صبر کر رہا تھا کہ دیگر ساتھی بھی اپنے مطلوبہ جگہ تک پہنچ جائیں۔ اچانک دشمن کے دو اہلکار چیک پوسٹ سے نکل کر ان کی طرف آنے لگے اور آتے ہوئے چلا رہے تھے: “کون ہے وہاں؟ بتاؤ ورنہ گولی چلا دیں گے!” لیکن بلوچ خان گہری سانس کے ساتھ اپنی پوزیشن پر کھڑا دشمن کے اہلکاروں پر اپنی نظریں جمائے، دیگر ساتھیوں کے پہنچنے کا انتظار کر رہا تھا۔ تب تک دشمن کے اہلکار سمجھ چکے تھے کہ یہ کوئی عام انسان یا جانور کی حرکت نہیں بلکہ بلوچ سرمچار ہیں جو موت کے پیامبر بن کر ان کے سامنے کھڑے ہیں اور انہیں نیست و نابود کرنے کے لیے تیار ہیں۔

جیسے ہی دشمن کو اس بات کا احساس ہوا، انہوں نے بلوچ خان پر فائرنگ کے لیے میگزین چیمبر کیا۔ دشمن کے چیمبر کے ساتھ ہی سامنے کھڑے اہلکار پر بلوچ خان نے پہلے فائر کھولا اور وہ ادھر ہی ڈھیر ہو گئے، لیکن اس وقت تک وہ مکمل طور پر دشمن کے چوکی کے سامنے کھڑا ہو کر فوجی اہلکاروں پر حملہ کر چکا تھا۔ فائرنگ کی آوازیں سن کر سب ساتھیوں نے اپنی اپنی جگہ پر پوزیشن بنا کر حملہ شروع کر دیا۔ دشمن کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اچانک اتنی تیزی اور تعداد میں سرمچار دشمن کے چاروں اطراف میں آ کر کھڑے ہو گئے ہیں۔ حملہ آور گروپ اپنے ساتھیوں سمیت دشمن کے مغربی چوکیوں پر زبردست حملہ شروع کر چکا تھا، جبکہ دشمن کے اہلکار خود کو سنبھال رہے تھے، پوزیشنز بنا رہے تھے اور فائرنگ شروع کر چکے تھے۔

اسی وقت دشمن کا ایک اہلکار، جو بلوچ خان کی فائرنگ سے پہلے بیٹھا تھا اور چھپ کر اپنی پوزیشن تبدیل کر چکا تھا، سامنے کھڑے بلوچ خان پر فائرنگ کر دیا۔ گولیوں کی بارش میں ایک گولی سیدھی بلوچ خان کے پیٹ کے نیچے حصے میں جا کر کمر سے نکل گئی اور وہ گر گیا۔ بلوچ خان نے چند لمحے سوچا، کھڑے ہونے کی کوشش کی، اور قمیض اٹھا کر دیکھا کہ گولی جسم میں داخل ہو کر نکل چکی تھی اور خون بہہ رہا تھا۔ یہ سب کچھ سیکنڈز میں ہو چکا تھا۔ چند لمحے پہلے وہ دشمن کی چیک پوسٹ کو نشانہ بنا رہا تھا، اور اب گولی لگنے کے باوجود گر پڑا۔ وہ پیچھے ہٹا اور ایک پتھر کے سہارے اپنی پوزیشن سنبھال لی۔ بلوچ خان پر گولی چلانے والے دشمن اہلکار سکون کا سانس لے ہی رہے تھے کہ بلوچ خان کے پیچھے کھڑے ساتھی نے دشمن پر زبردست فائرنگ کر کے اسے چند لمحوں میں ہلاک کر دیا۔

اب جنگ مکمل طور پر شروع ہو چکی تھی، پورا بازار گولیوں اور بارود کے دھماکوں سے گونج رہا تھا۔ بلوچ خان زخمی ہونے کے باوجود اپنے ساتھیوں کو حملے کے لیے ہدایات دے رہا تھا اور انہیں دشمن کی پوزیشن، طاقت، اور آگے بڑھنے کے لیے حوصلہ دے رہا تھا۔ بلوچ خان کے جسم سے خون بہہ رہا تھا، وہ ہر منٹ کے ساتھ کمزور ہو رہا تھا۔ اسی وقت ایک ساتھی نے چادر پھاڑ کر گولی کی جگہ باندھ دی تاکہ زیادہ خون بہنے سے بچا جا سکے۔ گولی لگنے کے باوجود وہ اس وقت تک ساتھیوں کو بتا رہا تھا کہ حملہ جاری رکھیں۔ جب کمزوری زیادہ بڑھنے لگی تو وہ سوچنے لگا کہ اب مزید کیا کیا جا سکتا ہے۔ وہ خود سے زیادہ مشن پر توجہ دے رہا تھا، باقی ساتھیوں کی سلامتی کے لیے فکر مند تھا اور ساتھیوں کا مورال بڑھاتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ دشمن کو بھاگنے کا موقع نہ دیا جائے، حملہ جاری رکھیں۔

اگرچہ بلوچ قومی فوج کے سامنے لڑنے والا دشمن بزدل اور کم ظرف ہوتا ہے، اس وقت وہ لڑ رہے تھے کیونکہ انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ یہ حملہ کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ سرمچار موت کے پیامبر بن کر دشمن پر حملہ آور ہو چکے ہیں۔ وہ انہیں نیست و نابود کرنے کے لیے آ چکے ہیں، اس لیے اپنی چوکیوں میں مکمل چھپ چکے تھے۔ بلوچ خان پتھر کے سہارا لے کر بیٹھ گیا، ہاتھ کے اشاروں اور وائرلیس سیٹ کے ذریعے ساتھیوں کو بتا رہا تھا کہ حملہ جاری رکھیں۔ اسے اپنی جان کی فکر نہیں تھی، وہ گولی لگنے کے باوجود ڈٹ کر کھڑا تھا، مضبوط حوصلے کے ساتھ جنگ کی کمان سنبھال رہا تھا۔ زخمی ہونے کے باوجود وہ اس غم میں نہیں تھا کہ شاید چند لمحوں بعد زندہ نہ رہے، بلکہ اسے مشن کی کامیابی کا فکر ستا رہی تھی۔ اسی لیے وہ مسلسل ساتھیوں کو دشمن کے کیمپ پر مزید شدت سے پیش قدمی کے لیے گائیڈ کر رہا تھا، اور تب تک ساتھی بھی مزید جوش و جذبے کے ساتھ دشمن پر حملہ آور ہو چکے تھے۔

اب تقریباً دو گھنٹے ہو چکے تھے کہ بلوچ سرمچار دشمن کے کیمپ پر حملہ آور ہیں اور دشمن اپنی چوکیوں کے اندر سے سرمچاروں کی پیش قدمی کو روکنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔ اب بلوچ خان کچھ زیادہ کمزوری محسوس کر رہا ہے، انہوں نے چند لمحوں میں سوچا، پھر فیصلہ کیا کہ وہ آخری گولی کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے خود کو گولی مار کر شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہوگا اور ان ساتھیوں میں شامل ہوگا جنہوں نے وطن پر خود کو قربان کرکے ہمیشہ امر ہو گئے۔ وہ ساتھی جہدکاروں پر کوئی بوجھ بھی نہیں بننا چاہتا تھا، وہ سوچ رہا تھا کہ اب میری جدوجہد اور منزل کا اختتام شہداء کے عظیم راستے پر چلنا ہے اور وہ مقام اب آ چکا ہے۔ بلوچ سرمچاروں میں روایت ہے کہ وہ دشمن کے ہاتھوں زندہ پکڑے جانے یا اپنے ساتھیوں کے لیے بوجھ بننے کے بجائے شہادت کو قبول کرتے ہیں تاکہ اصل مقصد اور جدوجہد جاری رہے۔ وہ فیصلہ کے نتیجے تک پہنچ چکا تھا، اپنی ہتھیار چیمبر کر چکا تھا، کیونکہ اس وقت وہ مزید لڑنے کے قابل نہیں تھا، وہ اپنے فیصلے پر عمل درآمد کرنے کے لیے ذہنی اور فکری طور پر تیار تھا اور اسی پر عمل درآمد کرنے کے لیے ٹریگر کی طرف انگلی بڑھا ہی رہا تھا کہ اچانک اسے اپنے بچے کی شکل میں ایک خیال آیا، اور اس نے فیصلہ روک دیا، انہیں یہی خیال آیا کہ اس وقت مزید جنگ لڑنے کی ہمت و صلاحیت اس میں موجود ہے، جب تک اس میں سانس ہے وہ اپنی جہد جاری رکھے گا۔ اسی خیال کے ساتھ اس نے اپنا فیصلہ واپس لیا۔ وہ مزید مشن پر توجہ دینے لگا، اسی وقت سرمچار ساتھیوں میں سے کسی ایک سنگت کا ہتھیار کام کرنا چھوڑ دیتا ہے تو بلوچ خان فوراً اپنا ہتھیار اس سنگت کو دے دیتا ہے اور اس کا بند ہونے والا ہتھیار خود لے لیتا ہے اور ساتھی کے حوصلہ بڑھاتے ہوئے انہیں دشمن پر مزید شدت سے حملہ آور ہونے کے لیے کہتا ہے۔ چند لمحوں بعد ساتھی سرمچار اس کے قریب پہنچے، اور انہیں کہا گیا کہ وہ نکلنے کی تیاری کرے، انہیں میڈیکل سپورٹ دینے کے لیے آگے کیمپ کی طرف لے جایا جائے گا۔

یشتر ساتھی یہی سوچ رہے تھے کہ اب پتہ نہیں وہ زیادہ دیر تک سلامت رہ سکے گا یا نہیں لیکن وہ پرامید اور پرحوصلہ کسی بھی حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار تھا۔ دو ساتھی سرمچار بلوچ خان کو سہارا دیتے ہیں اور وہ پیچھے کی طرف سے چلنا شروع کر دیتا ہے۔ اس وقت وہ پیٹ کے اندر سے ایک گولی کھا چکا ہے، پھر بھی وہ خود ساتھیوں کے سہارے کے ساتھ چل رہا ہے۔ ایک طرف وہ دو ساتھیوں کے ساتھ کیمپ کی طرف نکل جاتا ہے تو دوسری جانب دیگر ساتھی دشمن پر اپنا حملہ جاری رکھے ہوتے ہیں، انہوں نے فیصلہ کر لیا ہوتا ہے کہ وہ دشمن کے کیمپ تباہ کر دیں گے اور دشمن کو علاقے سے بیدخل کرکے اس کے لیے خوف کی ایسی فضا قائم کریں گے کہ کوئی بھی فوجی اہلکار پھر رات کو سکون کی نیند سو نہ سکے۔

وہ زخمی حالت میں آگے بڑھنا شروع کر دیتا ہے، دو ساتھی سرمچار اسے سہارا دیتے ہیں، تقریباً تین گھنٹے تک وہ زخمی حالت میں پیدل سفر جاری رکھتے ہیں، کبھی درد اسے سخت تکلیف میں مبتلا کر دیتا ہے، کچھ لمحوں کے لیے رک جاتا ہے، پھر واپس اسی جذبے کے ساتھ سفر شروع کر دیتا ہے کہ ابھی سفر لمبا ہے۔ جنگ افسانوی شکل میں، کہانیوں کی شکل میں شاید آسان ہو لیکن حقیقی معنوں میں جنگ سے جڑے افراد جانتے ہیں کہ جنگ کیسی تکلیف دہ مگر پرعزم عمل ہے، جو درد، وحشت، تکلیف کے عمل سے جڑے ہوتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ جنگ باتوں کی نہیں، علم، عمل، تکلیف، مشکلات اور عظیم مقصد سے جڑی فلسفہ ہے اور اس فلسفے سے ناواقف لوگ جنگ کی حقیقت سے کبھی جڑ نہیں سکتے، وہ حقیقت سے کبھی جڑ نہیں سکتا جس سے اس وقت بلوچ خان جڑ چکا تھا۔ چند لمحے پہلے ساتھی دشمن کے خلاف حملے کا منصوبہ بنا رہے تھے اور اب چند گھنٹوں بعد کیمپ پر جنگ جاری تھی اور وہ زخمی حالت میں ساتھی سنگتوں کے سہارا واپس لوٹ رہا تھا اور کسی کو بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ اب وہ مزید دیر تک سلامت رہ سکتا ہے۔

جب انسان ایک معنی خیز مقصد سے جڑ جاتا ہے تو پھر وہ مقصد کا ہو جاتا ہے، وہ اپنی ذات کو بھول جاتا ہے، وہ راستے میں چلتے ہوئے ساتھیوں کے ساتھ مکالمے کے ذریعے حال احوال کرتے ہوئے باقی ساتھیوں کے حوالے سے اور جنگ کے حوالے سے مسلسل اپ ڈیٹ لیتا رہتا، ہر چند منٹ بعد وہ کچھ لمحے رک جاتا اور پھر ساتھیوں کے بارے میں معلومات لیتا۔ اس وقت صبح کا سورج توڑا توڑا نظر آ رہا تھا، اور وہ چند لمحے پھر سے ٹھہر گیا، سورج کے نکلنے والے اس لمحے کو وہ صرف دیکھنا نہیں بلکہ محسوس کرنا چاہتا تھا، اس کی شدت اور خوبصورتی کو جذب کرنا چاہتا تھا، وہ اس وجہ سے بھی اسے خوب دیکھنا چاہتا تھا کہ شاید پھر وہ واپس کبھی سورج نکلتے دیکھ نہ پائے۔ وہ اس لمحے میں جہاں کائنات کی خوبصورتی دیکھ رہا تھا وہی وہ ایک الگ جنگ بھی دیکھ رہا تھا جو اس سورج کی طرح آنے والے دنوں میں اسی خوبصورتی مگر شدت کے ساتھ دشمن کے خلاف شروع ہونے والی تھی۔ وہ انہی خیالوں میں گم تھا کہ ساتھی سرمچاروں نے اسے مزید آگے بڑھنے کے لیے کہا، کچھ ساتھیوں نے اسے کندھوں پر اٹھانے کی بھی کوشش کی تھی لیکن وہ ساتھیوں پر بوجھ نہیں بننا چاہتا تھا۔ وہ اس حالت میں بھی خود سفر کرنے کی کوشش میں لگا ہوا تھا البتہ ساتھی کندھوں پر اسے سہارا دے رہے تھے۔ دو گھنٹے جنگ لڑنے، زخمی ہونے کے بعد گزشتہ چار گھنٹوں کے سفر کے بعد اسے سواری کے لیے گاڑی کا بندوبست کیا جا چکا تھا۔ ان چار گھنٹوں میں ایک بھی ایسا لمحہ نہیں آیا جہاں اسے خوف محسوس ہو، جیسے جنگ کی حقیقت کو وہ اس حد تک اپنے اندر جذب کر چکا تھا جیسے روح انسانی جسم کے اندر پنپتی ہے۔

پہاڑی راستوں میں سفر کرتے ہوئے مزید دو گھنٹے لگے، پھر واپس ایک گھنٹے تک وہ پیدل سفر کرتے ہوئے زخمی حالت میں کیمپ پہنچا۔ وہاں پہنچ کر واپس اس نے ساتھیوں کے حوالے سے معلومات لی، لیکن میدان جنگ اس وقت تک گولیوں کی آواز سے گونج رہا تھا۔ دشمن اب سمجھ چکا تھا کہ یہ سرمچار گولی چلانے کے غرض سے نہیں بلکہ فتح ہونے کے غرض سے آئے ہوئے ہیں۔ وہ دشمن کی موجودگی کو تباہ کرنے اور ان کے مورچوں کو نیست و نابود کرنے آ چکے ہیں۔ یہ واپسی کا راستہ اختیار کرنے والے نہیں بلکہ ہمارے لیے موت بن کر آ چکے ہیں۔ لیکن دشمن نے دن کی روشنی کو دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا کہ اب شاید انہیں ہیلی اور دیگر ہوائی سپورٹ مل جائے، جس سے پھر سرمچار مجبور ہو جائیں گے کہ وہ اپنی کارروائی روک دیں اور انخلا کر لیں۔ چند گھنٹوں بعد دشمن کی ہیلی کاپٹرز بھی دشمن کی مدد کے لیے آ پہنچے، لیکن ساتھیوں نے بھاگنے اور آپریشن روکنے کے بجائے ہیلی کاپٹروں کو بھی ایل ایم جی مشین گن سے نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ دشمن کے ہیلی کاپٹرز پر جب سرمچاروں نے تابڑ توڑ حملہ شروع کیا تو وہ خوف کے مارے اپنے فوجیوں کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ ایک مرتبہ پھر دشمن کے اہلکار مکمل ڈی مورلائز ہو چکے تھے، وہ تھک ہار چکے تھے، لیکن ان کے لیے اس وقت کوئی چارہ نہیں تھا۔ وہ سر پر کفن باندھے بلوچ وطن زادوں کا سامنا کر رہے تھے جو مرگِ شہادت پر یقین رکھتے ہیں، جنہوں نے گھروں سے نکلتے وقت فیصلہ کیا ہوتا ہے کہ اب ان کی زندگی وطن اور اس عظیم مقصد کو آگے بڑھانے کے لیے ہوگی۔ آہستہ آہستہ دشمن کے اہلکار ایک دوسرے کو فائرنگ کی سپورٹ دیتے ہوئے کیمپ چھوڑ کر بھاگ نکلنے لگے۔ اپنے چند مرے ہوئے ساتھیوں کی لاشیں بھی چھوڑ گئے۔

اس وقت قابض فوج بلوچ سرمچاروں کے حملوں کی زد میں آئے ہوئے فوجیوں کے لیے ایک مرتبہ پھر زمینی فوج بھیجنے کی کوشش کرتی ہے، لیکن زمینی فوج کو بھی بلوچ سرمچاروں کی بیک اپ ٹیم سخت حملے کا نشانہ بناتی ہے۔ چاک و چوبند بلوچ سرمچار جب فوجیوں پر حملہ شروع کر دیتے ہیں تو وہ آگے بڑھنے کے بجائے شدت سے پیچھے کی طرف بھاگ جاتے ہیں، اور اپنے فوجیوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ اب جب دشمن کے اہلکاروں کو اس بات کا بخوبی علم ہو جاتا ہے کہ ان کے لیے قابض فوج کی طرف سے کوئی مدد نہیں آنے والی اور بلوچ سرمچار مکمل طور پر فتح کے جذبے کے ساتھ آئے ہوئے ہیں اور دشمن کے خلاف لڑ رہے ہیں، اس حقیقت کو سمجھ کر دشمن کے اہلکار آہستہ آہستہ کیمپ چھوڑ کر بھاگ نکلنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ بلوچ سرمچاروں کے للکار کے سامنے مکمل طور پر شکست خوردہ ہوتے ہیں اور بھاگنے کے راستے تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔ دوسری جانب بلوچ سرمچار جذبہ شہادت کے ساتھ دشمن پر اپنی یلغار جاری رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔

اس وقت یہ خبر پورے بلوچستان میں پھیل چکی ہوتی ہے، سوشل میڈیا پر قابض دشمن فوج کے سپورٹرز اور لوگ رو رہے ہوتے ہیں، بلوچ سرزمین پر تعینات ہر فوجی کا خاندان اس وقت خوف کے نیند سے سو نہیں پا رہا ہوتا اور حال احوال کے مختلف ذرائع استعمال کرتے ہوئے اپنے اپنے لوگوں کی حفاظت کے حوالے سے معلومات لے رہے ہوتے ہیں۔ دوسری جانب بلوچ عوام خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے، وہ دشمن کی چیک پوسٹوں اور ان کے لوگوں کے خوف کو دیکھ کر سرمچاروں پر نازاں تھے جنہوں نے دشمن پر یلغار کرکے اسے خوفزدہ کر دیا تھا۔ بلوچ عوام جنہیں دشمن کی جانب سے ہر روز تذلیل، جبر، وحشت، بربریت اور غیر انسانی رویوں کا سامنا ہوتا ہے، جب انہیں علم ہو جاتا ہے کہ وطن کے شہزادے دشمن پر ٹوٹ پڑے ہیں تو وہ خوشی سے جھومنے لگتے ہیں۔ اس وقت اس جنگ کی کیفیت بھی یہی تھی، پوری قوم آگاہ تھی، خوش تھی، اور ہزاروں مائیں دعاؤں پر بیٹھ کر سرمچاروں کی حفاظت کے لیے منتیں کر رہی تھیں۔ بلوچ سماج میں روایت ہے کہ جب بھی بلوچ سرمچار دشمن کے خلاف کوئی معرکہ شروع کر دیتے ہیں تو مائیں دعاؤں میں بیٹھ کر سرمچاروں کی جان و سلامتی کے لیے خدا سے منتیں کرتی ہیں، نوجوان ایک دوسرے کو آگاہ کرتے ہیں، بچے خوشی اور انقلاب کے گیت گاتے ہیں اور بہنیں اپنے بھائیوں پر فخر محسوس کرتی ہیں، اور دشمن کے خلاف ایسے بڑے یلغار سرمچاروں کے حوصلے مزید بڑھاتے ہیں جبکہ دشمن مزید خوف کا شکار ہو جاتی ہے اور ذہنی طور پر مزید مفلوج رہ جاتی ہے۔

بلوچ خان اس وقت کیمپ میں آ چکا تھا، اس کا زخم شدید گہرا ہو چکا تھا۔ کیمپ میں موجود ایک ساتھی جو بطور ڈاکٹر سرمچاروں کے لیے فرسٹ ایڈ کا کام کرتا تھا اور اپنے کام میں مہارت رکھتا تھا، وہ ایک سرمچار اپنی ضرورتوں کے مطابق ہمیشہ مہارت رکھتا ہے۔ ساتھی نے چیک اپ کیا، انہیں ضروری دوائیاں دیں تاکہ وہ کچھ بہتر محسوس کر سکے۔ مختلف دوائیوں کے ذریعے انہیں بنیادی میڈیکل ضرورتیں فراہم کی گئیں۔ کچھ لمحے بعد وہ سوچنے لگا کہ زخم گہرے ہیں، یہاں کیسے علاج ممکن ہو سکے گا۔ اس وقت تک شام ہونے والی تھی۔ ساتھی سنگت کیمپ پر مکمل قبضہ کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے، انہوں نے کیمپ میں موجود تمام ساز و سامان اپنے قبضے میں لے لیا تھا، جسے دشمن پیچھے چھوڑ کر بھاگ گیا تھا، جس میں فوجی اسلحہ سے لے کر وردی تک ہر چیز موجود تھی، جبکہ دشمن اپنے مرے ہوئے فوجیوں کو بھی چھوڑ گیا تھا۔ مکمل طور پر گیارہ فوجی اہلکار مارے جا چکے تھے جبکہ کئی زخمی حالت میں تھے اور درجنوں ساتھیوں کی پیش قدمی کو دیکھ کر بھاگ گئے تھے۔ فوجی معرکہ اپنے اختتام پر پہنچ چکا تھا مگر جنگ ابھی باقی تھی۔ یہ دشمن کے خلاف فوجی مہم اور طاقت کے مظاہرے کی ایک جھلک تھی۔ ساتھیوں نے پورا رات بھر جنگ لڑی اور اب دشمن کے کیمپ پر قبضہ کر رکھا تھا۔ چند ساتھی سکھ کی سانس لے رہے تھے، بیشتر ساتھی سگریٹ پی رہے تھے اور اپنی تھکن کو کچھ لمحوں کیلئے سگریٹ کی چسکیوں سے کم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ایک سرمچار کی زندگی میں اس سے زیادہ خوبصورت لمحہ نہیں ہو سکتا کہ آپ دشمن کے ایک اہم مرکز پر قبضہ کیے ہوئے ہوں اور ان کی فوجی ساز و سامان پر قابض ہوں۔ اس لیے یہ جانباز سرمچار اس لمحے کو محسوس کرکے اپنی یادوں کا حصہ بنانا چاہتے تھے۔ سگریٹ کی چسکیاں لینے کے بعد اب واپسی کا راستہ اختیار کیا جا چکا تھا۔

ساتھی سرمچار ایک رات اور دن کی جنگ لڑ چکے تھے، گزشتہ دو دن سفر کر چکے تھے اور اب جنگ کے بعد وہ پھر سے پہاڑوں اور غاروں کے اندر سے غائب ہو گئے۔ پھر ان کے سامنے ایک لمبا سفر تھا، اب دشمن کا ساز و سامان بھی ان کے کندھوں پر آ چکا تھا۔ لیکن یہ ایک سرمچار کی زندگی کا حصہ تھا۔ وہ انہی تکالیف اور مشکلات میں رہتے ہوئے ایک ظالم اور جابر دشمن کے خلاف لڑتا ہے۔ یہ وہ لڑائی ہے جسے انسان گمان بھی نہیں کر سکتا۔ ایک دن مسلسل سفر کرنے کے بعد اب ساتھی کیمپ پہنچ چکے تھے۔ ساتھی سنگتوں نے سوال جواب کیا، خیر خیریت دریافت کی، بلوچی حال احوال مکمل ہونے اور کمانڈر سے جنگ کی تفصیلات طلب کرنے کے بعد سب نے بلوچی چھاپ کرنے کا فیصلہ کیا، اور پھر سب ساتھی معرکے کی کامیابی کا جشن بلوچی چھاپ کی شکل میں منا رہے تھے۔

بلوچ خان کو ساتھیوں کی مشاورت سے اگلے دن علاج کے لیے کہیں اور ایک ہینڈ گرنیڈ کے ساتھ بھیج دیا گیا کہ دشمن کے ساتھ کسی بھی حالت میں آمنے سامنے ہونے کی صورت میں خود کا خاتمہ کر دے۔ جبکہ باقی سرمچار پھر اپنے اپنے کام میں لگ گئے، کچھ ساتھیوں کو گشت پر بھیجنے کی تیاری شروع ہوئی، کچھ کو کیمپ کی ذمہ داریاں دی گئیں، کچھ ساتھی سفر پر نکلنے کی تیاری کرنے لگے، کچھ کیمپ میں آرام کرنے لگے اور چند ساتھی پھر سے دشمن کے خلاف ایک اور معرکے کا منصوبہ بنانے لگے۔ پھر ایسے ہی آگے سرمچاروں نے دشمن پر اپنی منظم، طاقتور اور خوفناک جنگیں جاری رکھیں۔۔۔ جبکہ بلوچ خان کئی مشکلات کے بعد اپنا علاج کرانے میں کسی حد تک کامیاب رہا اور وہ پھر محاذ کی جانب چل دیا، ایک اگلے معرکے کے لیے، ایک الگ جوش اور جذبے کے ساتھ، اور مقصد وہی، بلوچ سرزمین سے دشمن کا خاتمہ کر دینا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔