جنگ ِ بلوچ، جنگِ بقاء – کاکا بلوچ

58

جنگ ِ بلوچ ،جنگِ بقاء

تحریر: کاکا بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

یہ جنگِ بقاء ہے، بلوچ سرزمین کی جنگ ہے، ہماری شناخت کی جنگ ہے۔ یہ جنگ صرف بلوچ کو ہی لڑنی ہے۔ اب ہمیں علاقائی اور قبائلی تفریق یعنی “اس کا”، “اس کی”، “ان کا” سے نکل کر اتحاد کی راہ پر چلنا ہوگا۔
سینہ تان کر آگے بڑھنا ہوگا۔
دشمن سے جنگ جیتنی ہے۔
مقابلے کا وقت آچکا ہے، اب جنگ کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہا۔

ہماری ماؤں کی توہین، بچوں کی جبری گمشدگیاں، روزانہ کی بنیاد پر ظلم، تشدد، اور لاشوں کا تحفہ… اس کے سوا ہمیں اور کیا ملا ہے؟
ہماری خاموشی نے ہمیں صرف درد اور اذیت دی ہے۔
اب وقت ہے کہ ہم “بلوچ” بن کر، اللہ کا نام لے کر، جنگِ بقاء لڑیں۔

ہماری یکجہتی، ہماری منزل ہے — آزادی۔
جو ہمارا حق ہے — شریعتاً، فطرتاً اور قانونی طور پر۔

ہمارے بچے روزانہ کی بنیاد پر اس حق کی جنگ میں اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں، اور ہم تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔
وہ دشمن، جو اپنی طاقت اور درندہ صفت چہرہ لے کر ہمارے گھروں میں گھس کر ہمیں چن چن کر نشانہ بنا رہا ہے، اس نے کون سا ظلم ہے جو ہم پر روا نہیں رکھا؟

روزانہ ویرانوں میں ہمارے بچوں کی مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں، جن پر تیزاب پھینک کر ہمیں درد پر درد، زخم پر نمک کی اذیت دی جاتی ہے۔
کرائے کے ایجنٹ اور پولیس جیسے شیطان صفت افراد کے ہاتھوں ہمارے بچوں کی لاشیں اسپتالوں میں رکھ کر انسانیت کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، اور ہم… خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔

کب تک؟
کب تک ماں اپنے لختِ جگر، بہن اپنے بھائی کو اس حالت میں دیکھ کر چیخیں مارتی رہے گی؟ پھر بھی پولیس اور ادارے ان بچوں کو رسومات کے بغیر، ماں بہنوں کے سامنے، بےاحترامی سے دفناتے ہیں۔
یہ سب کچھ کب تک برداشت کرتے رہیں گے؟

ایسے دشمن کو اپنا محافظ کہنا، میرے نزدیک، خود کو مجرم ٹھہرانا ہے۔ رب فرماتا ہے: ظالم کے خلاف لڑنا، حق حاصل کرنا، شرعی فرض ہے۔

برداشت کی حدیں پار ہو چکی ہیں۔ بلوچ کا ضمیر اب مزید خاموشی برداشت نہیں کر سکتا۔ عدالتیں دشمن کی، نظام دشمن کا،
اور ستر سالہ تاریخ — نفرتوں اور ظلم کی داستان۔ یہ سب اب کسی پر چھپا نہیں رہا۔

ہم سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، کسی کو سبق سکھانے کی ضرورت نہیں، سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا ضمیر کب جاگے گا؟ کیا کوئی بلوچ بچا ہے، جو ان دردناک حالات میں خدا کو نہ پکار رہا ہو؟

دشمن خدا بن بیٹھا ہے، طاقت کے نشے میں “لا الہ الا اللہ” کا نام لے کر اپنی درندگی کو جائز ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

یہ سب کچھ کب تک چلے گا؟ آخرکار، اس کا واحد حل — جنگ — ہی ہے۔ کیا ہم کل کا انتظار کرتے رہیں؟
دشمن کے دیے گئے زخموں سے ہمیں کچھ حاصل نہیں ہونے والا۔

جتنا ہم دیر کریں گے، اتنی ہی اذیت بڑھتی جائے گی، نفرت کی آگ ہمیں جلاتی رہے گی۔ اب وقت ہے کہ ہم علاقائی، قبائلی اور ذاتی اختلافات سے نکل کر اس جنگ کو اپنی جنگ سمجھیں۔ ہر بلوچ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ جس دن ہم نے یہ جنگ اپنی سمجھی —
اسی دن کامیابی ہمارا مقدر ہوگی،اور دشمن کو شکست دینا یقینی ہوگا۔ یہ میرا ایمان ہے۔

ورنہ ہم جلتے رہیں گے، ہماری زمین ہم سے چھینی جاتی رہے گی، اور ہم نیست و نابود ہوتے چلے جائیں گے۔

ہمیں دشمن کو ایک پیغام دینا چاہتے ہیں: ہم بلوچ ہیں اور اپنی بلوچیت کا ثبوت دینا ہمارا فرض ہے۔

بلوچ اس جلتی آگ کا وہ انگارہ ہے، جو جل کر کندن بن چکا ہے۔ آپ نے اپنی ساری طاقت آزما لی، مگر بلوچ اب بھی مقابلہ کر رہا ہے۔وہ اپنا مقصد حاصل کر کے رہے گا۔

آپ کی آگ ایک دن آپ ہی کے گھروں کو جلا کر راکھ کر دے گی۔ یہ نہ رکنے والی جنگ تب ہی رکے گی جب آزاد بلوچستان کا پرچم سربلند ہوگا۔

ہم رہیں یا نہ رہیں — بلوچ رہے گا، اور جب تک بلوچ زندہ ہے، ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔ ہمارے سرمچار زندہ رہیں گے۔

یہ جنگ، بلوچ کی جنگ ہے اور اس میں ہر بلوچ کو شریک ہونا ہوگا۔

یاد رکھیں: جنگ صرف بندوق کی گولی کا نام نہیں، بلکہ ساتھ دینے، ساتھ نبھانے، اپنے دل کی نفرت کو جوش میں بدلنے، اور دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بننے کا نام ہے۔

جب آپ جنگ میں شریک ہوتے ہیں، تو جنگ خود سکھاتی ہے کہ جنگ کیسے لڑی جاتی ہے۔

اب وقت آ چکا ہے کہ ہم سب اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کریں، شانہ بشانہ، ایک قوم بن کر، ایک آواز، ایک مقصد — آزادی — کے لیے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔