جبری گمشدگیوں کے خلاف دھرنا: اسلام آباد پولیس کی رکاوٹیں اور مظاہرین پر تشدد

34

اسلام آباد میں بلوچستان سے جبری گمشدگیوں اور سیاسی گرفتاریوں کے خلاف بلوچ لواحقین کا دھرنا 31ویں روز بھی جاری رہا۔

بلوچستان سے جبری گمشدگیوں اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کی غیر قانونی گرفتاریوں کے خلاف اسلام آباد میں جاری بلوچ لواحقین کا احتجاجی دھرنا آج 31ویں روز میں داخل ہو گیا ہے، لیکن تاحال مظاہرین کو پولیس کی جانب سے ہراسانی، رکاوٹوں اور تشدد کا سامنا ہے۔

جمعہ کے روز اسلام آباد پریس کلب کے سامنے “بی وائی سی قیادت کی غیر قانونی حراست اور جبری طور پر لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی شکایات” کے عنوان سے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جانا تھا، تاہم لواحقین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد پولیس نے سیمینار شروع ہونے سے محض چند گھنٹے قبل نہ صرف خواتین اور بچوں پر دھاوا بولا بلکہ ان پر تشدد کرتے ہوئے انہیں منتشر کرنے کی کوشش کی۔

پولیس کی جانب سے بلوچ لواحقین کو روکنے کے لیے رکاوٹیں کھڑی کی گئیں اور انہیں پریس کلب کے احاطے میں داخل ہونے سے بھی باز رکھا گیا اور خواتین اور بچوں کو زدوکوب کیا گیا اور پولیس کی جانب سے خواتین کے لئے نازیبا زبان استعمال کی گئی۔

لواحقین نے الزام عائد کیا کہ حکومت کی ہدایت پر اسلام آباد کو ایک قید خانے میں بدل دیا گیا ہے جہاں پرامن احتجاج کرنے والوں کو طاقت کے زور پر خاموش کرایا جا رہا ہے۔

بی وائی سی کی گرفتار رہنما ماہ رنگ بلوچ کی بہن دیہ بلوچ نے اس موقع پر کہا ہم اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے آئے تھے لیکن ہمیں جگہ بدلنے پر مجبور کیا گیا کل 14 اگست کے موقع پر اپنے لوگوں کے لئے راستے کول دیے گئے تھے مگر آج جب ہم پریس کلب آئے تو دوبارہ تمام راستے بند کر دیے گئے۔ 

انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں نہ صرف روکا گیا بلکہ خواتین اور بچوں پر ہاتھ اٹھایا گیا، گالیاں دی گئیں اور اب پولیس کی بھاری نفری یہاں موجود ہے۔

مزید برآں پولیس کی رکاوٹوں اور دباؤ کے باوجود بلوچ لواحقین نے اپنا سیمینار منعقد کیا جس میں انسانی حقوق کے کارکنوں، وکلا، طلبہ اور جبری لاپتہ افراد کے اہل خانہ نے گفتگو کی۔

اس دوران سیمینار میں بلوچستان میں جاری ریاستی جبر، جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت گرفتاریوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تفصیل سے گفتگو کی گئی۔

مقررین نے کہا کہ پرامن احتجاج ہر شہری کا آئینی حق ہے اور اس کو دبانے کے لیے طاقت کا استعمال نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ انسانی وقار کی توہین بھی ہے۔

احتجاجی دھرنے میں شریک افراد نے مطالبہ کیا کہ جبری گمشدگیوں کا خاتمہ کیا جائے گرفتار بلوچ رہنماؤں کو فوری طور پر عدالت میں پیش کیا جائے اور شہری آزادیوں کا احترام یقینی بنایا جائے۔