تو پما ما پرتو کربان ءِ باں
فدائی سربلند کے نام والد کا خط
دی بلوچستان پوسٹ
قربان، آپ کی قربانیاں ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں، آپ کی قربانیاں کسی بھی طرح بھلائی نہیں جا سکتیں، آپ کی دور اندیشی نے ہمیں زندگی جینے اور مرنے کا مقصد دیا ہے۔ آپ کی قربانیاں ہمیں یہی درس دیتی ہیں کہ ہم سب کو اپنی زندگی اس مقصد اور جدوجہد کو کامیاب کرنے کے لیے وقف کرنی چاہیے۔ آپ نے اپنی زندگی قربان کر کے ہمیں زندہ رہنے کا فلسفہ دیا۔ آپ کی قربانیاں ہمیں زندگی جینے کا حوصلہ دیتی ہیں، مزید کام کرنے کا حوصلہ دیتی ہیں، ڈٹے رہنے کا حوصلہ دیتی ہیں اور یہی حوصلہ دیتی ہیں کہ ہم سب اس دھرتی کی آزادی پر خود کو قربان کر دیں۔ آپ کی قربانیوں نے ہمیں الگ زندگی عطا کی اور ہمیں جینے کا مقصد دیا۔
میرے بیٹے، مجھے اچھی طرح یاد ہے وہ دن جب تمہارا رابطہ منقطع ہوا تھا اور دل ہی دل میں مجھے تمہاری جدائی محسوس ہونے لگی تھی، جب تم اپنی منزل کی جانب گامزن ہوئے تھے، میں نے تمہاری ماں کو آگاہ کیا تھا کہ ہمارا گلاب، ہمارا پل، ہماری زندگی، اپنے آپ کو قربان کرنے کے لیے چلا گیا ہے، لیکن ماں تو ماں ہوتی ہے، اسے یقین نہیں آیا، لیکن مجھے معلوم تھا، تمہاری جستجو، تمہاری سوچ، وطن سے محبت، زمین سے عشق، قوم کے لیے قربانی دینے کا جذبہ، سربلند، مجھے معلوم تھا کہ ایک دن تم اس وطن اور قوم کی خاطر اپنے خاندان کو چھوڑ دو گے۔
جس دن تم نے مجھ سے کہا کہ بابا، میں یہاں رہ کر کوئی ڈاکو یا چور نہیں بَننا چاہتا، میں ساتھیوں کے پاس جا کر تحریک کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہوں، قوم و وطن کے لیے قربانی دینے کا یہ جذبہ، مجھے دل ہی دل میں یہ بات کھائے جا رہی تھی کہ سربلند، ایک نہ ایک دن ہمیں بیچ راہ میں چھوڑ کر وطن کو اپنا لے گا لیکن مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ آپ اتنی جلدی اپنی منزل کی جانب جائیں گے۔ لیکن قوم و وطن سے محبت، عشق اور قومی فلسفہ انسان کو کسی بھی حد تک پار کرنے کے لیے لے جا سکتا ہے۔
لُمہ یاسمین نے اپنے جوان سال بچے کو خود پرچم پہنا کر اس سرزمین پر فدا کر لیا تھا اور جس دن سربلند جان نے مجھے فون کر کے بتایا کہ بابا، میں لُمہ یاسمین کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں اور جب لُمہ نے خود مجھے فون کر کے کہا کہ میں سربلند جان کو اپنا بیٹا بنا کر اپنے ساتھ رکھنا چاہتی ہوں تو اس دن ایک والد کے ہوتے ہوئے بھی میں سربلند کو کھو چکا تھا اور وہ گلزمین کا بیٹا بن چکا تھا، ریحان کی طرح لُمہ یاسمین کا بیٹا بن گیا تھا۔
دیگر والدین کی طرح ہماری بھی خواہش یہی تھی کہ سربلند جان ہماری آنکھوں سے کبھی بھی اوجھل نہ رہے لیکن جب کوئی بچہ سرزمین کو چنتا ہے تو وہ اس دن سرزمین کا ہو جاتا ہے، اور جب کوئی بچہ سرزمین کا ہو جاتا ہے تو اس کا حق ادا کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔
سربلند، مجھے اچھی طرح یاد ہے وہ دن جب تم نے اپنا رابطہ بند کر دیا تھا، میں نے جب کئی بار تمہیں رابطہ کرنے کی کوشش کی تو تمہارا رابطہ بند آ رہا تھا، میں دل ہی دل میں جستجو کائے جا رہی تھی، اس درمیان میں نے تمہارے نزدیک بیشتر ساتھیوں کو فون کرکے پوچھا لیکن انہوں نے نہیں بتایا، بیشتر کا یہی کہنا تھا کہ تم بولان جانے کی باتیں کرتے رہے ہو، یا محاذ پر چلے گئے ہو، لیکن مجھے یقین نہیں آ رہا تھا، باپ ہوں نا، باپ اپنے بچے کے غم سے آشنا ہوتا ہے تو تمہاری جدائی کیسے محسوس نہیں ہوتی قربان، مجھے مسلسل وہی سوال کائے جا رہی تھی کہ ایک دن تم نے مجھ سے پوچھا تھا کہ ابا اگر میں فدائی کا فیصلہ کروں تو کیا آپ مجھے اجازت دو گے اور میں نے یہی کہا تھا کہ نہیں، میں چاہتا ہوں کہ تم سلامت رہ کر جدوجہد کرو، شاید یہ میری خودغرضی تھی یا ایک والد کا اپنے بیٹے سے محبت، لیکن سربلند وطن سے محبت تو ہم نے تمہاری قربانی کے بعد سیکھی، مجھ جیسا شخص جو شاید پہلے زندگی کو ایک عام انسان کی طرح جینے کو سب سے بہتر سمجھتا تھا لیکن تمہاری جدائی نے سب معنی ہمارے لیے بدل دیے۔ میں مسلسل تمہاری بارے میں سوچ رہا تھا اور ہر جگہ رابطہ کرکے یہی پوچھنے کی کوشش میں تھا کہ تم کہاں چلے گئے ہو اور کوئی بتا نہیں رہا تھا جس سے میرا دل زیادہ بیٹھ رہا تھا۔ میں نے تمہاری ماں کو بتایا کہ سربلند اب ہم سے چلا گیا ہے، مجھے معلوم نہیں کہ وہ کہاں گیا ہے لیکن میرا دل کہہ رہا ہے کہ وہ اب ہم سے بہت دور چلا گیا ہے، اور مشکل ہے ہمیں مل جائے، تمہاری بہن اور ماں اس بات کو یقین کرنے سے انکاری تھیں لیکن مجھے مکمل یقین ہونے لگ گیا تھا۔ میری جستجو جاری تھی، شام کا وقت تھا، میں کسی دوست کے ساتھ چہل قدمی کے لیے گھر سے نکل کر قریبی پہاڑی کے نزدیک ایک دوست کے ساتھ چلا گیا تھا اور وہیں ٹائم پاس کرنے کی کوشش کر رہا تھا، آذان قریب تھا کہ ایک فون کال آیا۔۔ اور میری جستجو زیادہ ہونے لگ گئی، سلام دعا کیے بغیر انہوں نے کہا کہ ابا سنگت زین نے فدائی کیا ہے، زین سربلند کا تنظیمی نام تھا، یہی نام سے جانا جاتا تھا، لرزتے ہونٹوں کے ساتھ انہوں نے یہ باتیں کیں اور میں نے حیرانگی کے ساتھ پوچھا کہ کہاں؟ گوادر میں، کس نے کہا، میں نے جلد بازی میں پوچھا، نیوز میں چل رہا ہے، انہوں نے گھبراتے ہوئے کہا، اور دردمندانہ آواز میں کہا کہ آپ دوستوں سے حال احوال کرکے پتہ لگائیں بابا؟ میں حیران و سراسیمگی کے درمیان، ایک دو رابطہ کرنے اور کوششوں کے بعد مجھے علم ہو گیا کہ واقعی حملہ فدائی سربلند جان نے کی ہے۔ میرا دوست یہ دیکھ کر پوچھنے لگا کہ کیا بات ہے، اور میں نے انہیں کہا کہ میرے بیٹے نے گوادر میں فدائی حملہ کیا ہے اور پھر ہم دونوں حیران و سراسیمگی کے درمیان خاموش ہو گئے اور خاموشی میں گھر کی طرف چل دیے۔ میں راستے میں تمہارے خیالوں میں مگن تھا، تمہاری ہنسی خوشی، دل ہی دل میں مجھے کائے جا رہی تھیں اور تمہاری قربانی پر فخر ہونے لگ گیا تھا۔ میں دل ہی دل میں تمہاری سوچوں میں تھا اور مجھے معلوم نہیں کہ میں گھر کب پہنچا۔ گھر میں اس وقت صرف مجھے معلوم تھا کہ سربلند جان نے فدائی حملہ کیا ہے۔ میں پریشان تھا کہ کیسے اس ماں کو آگاہ کروں کہ اس کا پیارا بیٹا وطن پر قربان ہو گیا ہے جس پر وہ ماں ہمیشہ قربان رہی ہے۔ اور ماں جو دل کی مریض ہے، اگر بتا دیا تو کوئی اور مسئلہ پیدا نہ ہو، لیکن کوئی راستہ بھی نہیں تھا، پتا تو انہیں آج نہیں تو کل چلنا تھا تو انہیں بتا دیا کہ تمہارے لخت جگر، دل کے تکڑے نے سرزمین پر خود کو قربان کر دیا ہے، سربلند جان نے گوادر میں فدائی حملہ کر دیا ہے۔ ماں بھی حیران و سراسیمگی کی کیفیت میں تھی، یہیں سربلند جان کی بڑی بہن بھی کھڑی تھی اور یہ سن رہی تھی، یہ سن کر وہ بے قابو ہو گئی اور ان کے آنسو نکل گئے، جس کے بعد میں بھی خود پر قابو نہ پا سکا اور باز کوششوں کے بعد بھی میری آنکھوں سے آنسو نکل گئے اور میں دوسرے کمرے میں چلا گیا۔
رات ایسے ہی کب صبح ہوئی مجھے سمجھ نہیں آیا اور صبح ہوتے ہی کچھ جانے پہچانے والے لوگ فاتحہ کے لیے آنے لگے لیکن میں نے فیصلہ کیا تھا کہ میں کوئی فاتحہ نہیں رکھوں گا البتہ جو ساتھی اور لوگ حال احوال کے لیے آئیں گے وہ ہمارے مہمان ہوں گے۔
سربلند جان کی قربانی نے ہمیں جیسے ایک الگ زندگی جینے کا سبق دیا، اور اُسی دن میں نے یہی عہد کیا کہ “تو پما ما پرتو قربان ءِ باں” جس طرح تم نے آخری وقت، آخری لمحے میں کماش کو کہا تھا کہ تم نہیں میں قربان ہو جاؤں گا، ہم نے بھی یہی فیصلہ کیا کہ اب ہماری ساری زندگی سربلند کے فکر و فلسفے اور اس کے مقصد کو دی جائے گی، اور میں نے فیصلہ کیا کہ ہم تمام خاندان سربلند کے راستے پر چل کر اپنی تمام زندگی گزاریں گے۔
سربلند جان، میں آج بھی سوچتا ہوں کہ خدا نے، تم جیسے پھول، کم عمر مگر اتنا باشعور، فکر انگیز، بیٹا مجھے کیسے عطا کیا، شاید رب نے میری کوئی کرم دیکھ کر، مجھے اور تمہاری ماں کو تم جیسے عظیم بچے سے نوازا جس نے والدین کو راہ دی، اکثر بچے والدین کے راستے چلتے ہوئے اپنی زندگی گزار دیتے ہیں، انہی کی سیکھ، سمجھ، تعلیم اور تربیت بچے کو زندگی گزارنے کا مقصد دیتی ہے، لیکن تم نے ایک بیٹے ہو کر والدین، بھائی اور بہنوں کو جینے کا مقصد دیا ہے۔ میں شاید تمہاری اس عظمت تک تربیت کرنے کا قابل نہیں تھا لیکن تم نے ہماری تربیت جس حد تک کر دی ہے، شاید کہ کوئی والد یا والدہ اس سے زیادہ اپنے بیٹے سے چاہیں گے۔ جس دن سے تم وطن پر قربان ہوئے ہو، مجھے اس سرزمین، اس جہد، اس تحریک سے وابستہ ہر بچہ، نوجوان، اور جہدکار میں تم دیکھائی دیتا ہو، ان کے ساتھ دیوان کر کے لگتا ہے میرا بیٹا میرے ساتھ محو گفتگو ہے۔
سربلند جان، شاید تم یہی سوچتے ہوگے کہ میں اپنے فیصلے کے متعلق اس لیے خاموش رہا کہ کہیں باپ کا پیار، والد کی ممتا مجھے اپنے منزل اور مقصد کے لیے روک لیتی، لیکن میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ جس دن تم نے رابطہ منقطع کیا تھا، اُسی دن میں سمجھ گیا تھا کہ تم ہم سے کہیں دور جا رہے ہو، لیکن میں نے پکا ارادہ کر لیا تھا کہ اگر کبھی ایسا موقع آیا اور تم مجھے پوچھ لیتے کہ ابا، میں اپنے گلزمین کے لیے، اور اپنے مادرِ وطن سے دشمن کو نکالنے کے لیے فدائی حملہ کرنے جا رہا ہوں، تو میں تمہیں نہیں روکتا بلکہ تمہارے ہاتھوں کو چھوم کر، تمہیں بلوچستان کے بیرک سے لپیٹ کر رخصت کرتا، میں شاید کمزور ہوں، لیکن جس والد کا بیٹا تم جیسا بہادر، مضبوط، اور قربانی کے فلسفے سے سرشار ہو، وہ اتنا بزدل بھی نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنے بیٹے کی قربانی کے راہ میں رکاوٹ بن جائیں، اس کی عظیم عظمت کی طرف جانے کے سامنے رکاوٹ بن جائے۔
پہلے میرے لیے سربلند ایک تھا، اب ہزاروں سربلند مجھے مل گئے ہیں، اب میں قومی تحریک سے جڑے ہر بیٹے میں تمہیں دیکھتا اور پاتا ہوں۔ بیٹا، میں تمہیں بس یہی کہنا چاہتا تھا کہ تمہارے والدین اتنے کمزور نہیں، وہ تمہاری فکری اور شعوری راہ کے مسافر بن چکے ہیں، میں تمہیں یہی کہنا چاہتا ہوں کہ جب تک ہماری سانسوں میں سانسیں چل رہی ہیں، ہم تمہاری راہِ فکر پر گامزن رہیں گے، ہم تمہاری فکر و فلسفے کے سپاہی بنیں گے، اور تم نے اپنی قربانیوں سے جس طرح ہمارا سر بلند رکھا، ہم تمہارا سر بلند رکھیں گے، ہر لمحے تمہیں یاد کرتے ہوئے اس جدوجہد میں اپنی بساط کے مطابق جدوجہد جاری رکھیں گے۔
ہمیشہ سنتا رہا کہ عظیم بچے اپنے والدین کا سر فخر سے بلند کرتے ہیں، تم نے اپنی قربانیوں سے ہمارا سر صرف سماج نہیں بلکہ پورے قوم اور تاریخ کے سامنے سرخرو کیا، ایک ایسی عزت اور احترام عطا کی جو صدیوں میں کسی شریف دار انسان کو مل سکتا ہے۔ ایک والد، اس سے زیادہ کیا چاہ سکتا ہے کہ اس کا بیٹا، جوانی میں، اپنے قوم، سرزمین، سماج، والدین کا نام اس مقام تک اونچا کرے۔ ہمیں تم پر ہمیشہ فخر رہا ہے، ہمیشہ فخر ہے اور ہمیشہ فخر رہے گا، تم نے خود کو قوم کے لیے قربان کیا اور میں، تمہاری والدہ اور سب بہن بھائیوں نے خود کو تمہارے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے وقف کیا ہے اور آخری سانس تک اسی مقصد سے جڑے رہیں گے۔ اپنے ساتھ، میرے دیگر سربلند جانوں کو سلام دینا۔
تمہارا والد
کاکا انور
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔