تربت میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے کم عمر طالبعلم صہیب خالد کی ضمانت ایک لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض منظور کر لی۔
کم عمر طالبعلم پر کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) مکران کی جانب سے دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا گیا تھا، جس میں الزام عائد کیا گیا کہ اس نے فورتھ شیڈول میں شامل ایک فرد کی تقریر سوشل میڈیا پر شیئر کی تھی۔
اسی الزام کی بنیاد پر سی ٹی ڈی نے انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت صہیب کے خلاف کارروائی کی۔
بچے کے وکیل، جاڑین دشتی ایڈووکیٹ کے مطابق، عدالت میں ضمانت کی درخواست دائر کی گئی تھی، جس پر سماعت کے بعد عدالت نے ایک لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کر لی۔
واضح رہے کہ چند روز قبل سی ٹی ڈی نے تربت کے علاقے آپسر کے رہائشی کمسن طالبعلم صہیب ولد خالد کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی، جس کے بعد بچے کے والد کو اُسے انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں پیش کرنا پڑا۔
صہیب پر الزام ہے کہ اس نے سول سوسائٹی کے رکن، گلزار دوست، کی ایک تقریر سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ٹک ٹاک” پر شیئر کی تھی۔
اس واقعے کے بعد انسانی حقوق کی تنظیموں اور سیاسی و سماجی حلقوں کی جانب سے شدید ردِعمل سامنے آیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک کمسن بچے کے خلاف دہشت گردی جیسے سنگین الزام کے تحت قانونی کارروائی نہ صرف نامناسب ہے بلکہ یہ بنیادی انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی بھی ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے بھی واقعے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی کے قوانین کا اس طرح کا غلط استعمال بچوں کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔