لاپتہ صغیر احمد کی بہن نے کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے بھوک ہڑتالی کیمپ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ آج دوسری بار اس پریس کلب میں آپ کے سامنے کھڑی ہوں۔ میرا مقصد واضح اور سیدھا ہے اپنے بھائی صغیر احمد اور کزن اقرار بلوچ کی بحفاظت بازیابی۔
انہوں نے کہا کہ11 جون 2025 کی شب، میرے بھائی اور کزن کو اورماڑہ چیک پوسٹ سے پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں نے حراست میں لے کر جبری طور پر لاپتہ کر دیا۔ آج ان کی گمشدگی کو اکسٹھ (63) دن سے زائد ہو چکے ہیں۔ اس طویل عرصے میں نہ کسی تھانے میں رپورٹ درج ہوئی، نہ کسی عدالت میں پیشی ہوئی، اور نہ ہی کسی ریاستی ادارے نے ہمیں کوئی اطلاع دی۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے۔ میرا بھائی 20 نومبر 2017 کو بھی کراچی یونیورسٹی میں امتحان دینے کے بعد لاپتہ کیا گیا تھا اور تقریباً ایک سال تک نامعلوم حراستی مراکز میں غیر انسانی سلوک اور تشدد کا شکار رہا۔ یہ زخم آج تک ہمارے خاندان کے دل و دماغ میں تازہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صغیر احمد ایک تعلیم یافتہ نوجوان ہیں۔ کراچی یونیورسٹی اور سرگودھا یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ اپنے علاقے آواران واپس گئے تاکہ اپنے لوگوں کی خدمت کریں۔ لیکن روزگار نہ ملنے پر وہ تربت گئے اور اپنے کزن اقرار بلوچ کے ساتھ محنت مزدوری شروع کی۔ ان کا واحد “جرم” محنت سے روزی کمانا اور بلوچ ہونا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اقرار بلوچ گردے کے مریض ہیں اور فوری علاج کے محتاج ہیں۔ کیا ایک جمہوری ریاست میں بیمار اور بے گناہ افراد کے ساتھ یہ سلوک قابل قبول ہے؟ آئینِ پاکستان ہر شہری کو برا بر ی حقوق دیتا ہے، لیکن میرا سوال یہ ہے کہ کیا بلوچ بھی اسی آئین کا حصہ ہیں؟ اگر ہیں، تو پھر ہمارے نوجوانوں کو عدالت میں پیش کیے بغیر کیوں غائب کیا جاتا ہے؟
انہوں نے کہا کہ ہم کسی غیر قانونی عمل کی حمایت نہیں کرتے۔ اگر صغیر احمد یا اقرار بلوچ پر کوئی الزام ہے تو انہیں فوری طور پر عدالت میں پیش کیا جائے، وکیل فراہم کیا جائے اور شفاف قانونی عمل کے تحت مقدمہ چلایا جائے۔ یہی آئین کا تقاضا ہے، یہی انسانی حقوق کا اصول ہے، اور یہی اقوامِ متحدہ کے کنونشن برائے جبری گمشدگی کا مطالبہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب عدالتیں خاموش ہو جائیں، ایوان بے حس ہو جائیں اور میڈیا دوسری ترجیحات میں مصروف ہو جائے تو ایک مظلوم بہن کہاں جائے؟ جب ریاست خود اپنے شہریوں کے لیے خطرہ بن جائے تو ہم کس کا دروازہ کھٹکھٹائیں؟ خاموشی جرم ہے اور ہم اس جرم میں شریک نہیں ہو سکتے۔
میں سپریم کورٹ، انسانی حقوق کی تنظیموں، سول سوسائٹی اور میڈیا سے پُرزور اپیل کرتی ہوں کہ ہمارے بھائی اور کزن کی فوری اور بحفاظت بازیابی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ بلوچ نوجوان گمشدہ ہونے کے لیے پیدا نہیں ہوئے — ہم جینا چاہتے ہیں، تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں، باعزت روزی کمانا چاہتے ہیں، اور پرامن زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر صغیراحمد اور اقرار بلوچ کے حوالے سے ہمیں معلومات فراہم نہیں کیاگیا تو ہم اپنے احتجاج کو وسعت دینگے پہلے مرحلے میں کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاج کرینگے اور اگلے مرحلے میں ڈی سی آفس آوران کے سامنے دھرنا دینگے اگر پھر بھی ہمیں انصاف نہیں ملا تو ہوشاب میں روڑ کو بند کرکے بھرپور احتجاج ریکارڈ کرائے گے