گزشتہ سال پچیس اور چھبیس اگست کی درمیانی شب بلوچستان میں سرگرم بلوچ مسلح تنظیم، بلوچ لبریشن آرمی نے بلوچستان بھر میں سلسلہ وار حملوں کا آغاز کیا تھا جس میں بی ایل اے کے فدائی ونگ مجید برگیڈ، خصوصی دستے ایس ٹی او ایس اور فتح اسکواڈ جیسے یونٹوں کے سینکڑوں جنگجووں نے حصہ لے کر بیس گھنٹوں تک بلوچستان بھر میں حکومتی رٹ کو چیلنج کیئے رکھا، اور بلوچستان میں اپنا عملی کنٹرول قائم کیا۔ جس کو بی ایل اے نے آپریشن ھیروف کا نام دیا۔ ھیروف بلوچی اور براہوئی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ‘کالی آندھی’ کے ہیں۔
آپریشن ہیروف کو ایک سال مکمل ہونے پر آج بلوچستان میں مزید سخت سیکیورٹی کے انتظامات کئے گئے ہیں جبکہ پشاور سے کوئٹہ جانے والے جعفر ایکسپریس کو بھی دو روز کے لئے منسوخ کیا گیا ۔
دوسری جانب بلوچستان کے شہروں اور راستوں پر فورسز کی نقل و حرکت میں تیزی لائی گئی ہے۔ بعض شہروں میں موٹر سائیکل سواروں کو سڑکوں پر آنے سے روکنے کی بھی اطلاعات ہیں ۔جبکہ مسافر گاڑیوں کو بھی سخت چیکنگ کرکے شہروں میں داخل ہونے سے روکا جارہا ہے ۔ مقامی لوگوں کے مطابق حب ، لسبیلہ میں پاکستانی فورسز کو سادہ کپڑوں میں تعینات کیا گیا ہے ، اور عوام کی نقل و حرکت کو کنٹرول کیا جارہا ہے ۔
خیال رہے آپریشن ہیروف میں بلوچ لبریشن آرمی نے بلوچستان کے چودہ اضلاع میں بیک وقت حملے کرکے تمام مرکزی شاہراہوں، متعدد پولیس و لیویز تھانوں کا کنٹرول سنبھال کر فورسز کا اسلحہ تحویل میں لیا جبکہ قلات، بولان، کیچ و دیگر علاقوں میں فورسز کو شدید نوعیت کے حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔
اس آپریشن کے تحت بڑی نوعیت کے حملے میں بیلہ میں پاکستان فوج کے ہیڈکوارٹر کو بی ایل اے کی مجید برگیڈ نے نشانہ بنایا۔ حملے کا آغاز تیسری بلوچ خاتون ‘فدائی’ ماہل بلوچ نے بارود سے بھری گاڑی ہیڈکوارٹر سے ٹکرا کر دھماکے سے کیا۔
دریں اثناء بلوچ شہدا کمیٹی کی جانب سے آپریشن ھیروف میں حصے لینے والے سرمچاروں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے پروگرام کا انعقاد کیا گیا اور سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر بھی بلوچ سوشل میڈیا ایکٹوٹس کی جانب سے انہیں عقیدت و احترام سے یاد کرنے کے لئے کمپین چلائی گئی۔
چبیس اگست بلوچستان میں اہمیت کا حامل دن ہے اسی روز بلوچستان میں جاری تحریک کے اہم شخصیت نواب اکبر خان بگٹی کو شہید کیا گیا تھا۔ نواب اکبر بگٹی کے شہادت کے بعد بلوچستان میں جاری آزادی کی تحریک میں بتدریج شدت آتی رہی ہے۔