بلوچ سیاسی قیادت کی گرفتاریوں اور جبری گمشدگیوں کے خلاف کراچی اور اسلام آباد میں دھرنوں کا سلسلہ آج بھی جاری رہا۔
بلوچستان میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کی گرفتاریوں، انصاف کی عدم فراہمی اور کراچی و بلوچستان سے جبری طور پر لاپتہ کیے گئے افراد کے اہلخانہ کراچی اور اسلام آباد میں پریس کلبوں کے سامنے دھرنا دے کر اپنے پیاروں کی بازیابی اور انصاف کا مطالبہ کررہے ہیں۔
کراچی پریس کلب کے باہر لاپتہ طالبعلم زاہد علی بلوچ کی بازیابی کے لیے احتجاجی کیمپ ایک ہفتے سے جاری ہے، لیاری کے علاقے کلری سے تعلق رکھنے والے 25 سالہ زاہد کے اہل خانہ اور عزیز و اقارب روزانہ کلب کے باہر احتجاج میں شریک ہیں۔
زاہد کے والد عبد الحمید بلوچ نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ان کا بیٹا دن رات محنت مزدوری کر کے گھر کا خرچ پورا کرتا تھا اور والدین کے علاج کی ذمہ داری بھی اس پر تھی۔
انہوں نے کہا اس شدید گرمی میں ہم اس امید پر بیٹھے ہیں کہ شاید ریاستی اداروں کو ہمارے حال پر رحم آ جائے اور ہمارا بیٹا بازیاب کر دیا جائے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہر شہری کو آزاد زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے لیکن ریاست نے ہم سے یہ حق چھین لیا ہے۔ انہوں نے انسانی حقوق کی تنظیموں، اعلیٰ عدلیہ، میڈیا اور تمام انسان دوست حلقوں سے اپیل کی کہ وہ زاہد علی بلوچ کی بازیابی میں کردار ادا کریں۔
یاد رہے کہ زاہد علی بلوچ کو 17 جولائی 2025 کو مبینہ طور پر سیکیورٹی اداروں نے حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کر دیا تھا جس کے بعد سے ان کے اہل خانہ احتجاج کر رہے ہیں۔
دوسری جانب اسلام آباد پریس کلب کے سامنے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت اور لاپتہ افراد کے لواحقین کا دھرنا 27ویں روز میں داخل ہو چکا ہے۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ یہ دن بلوچ ماؤں، بہنوں اور نوجوانوں کے لیے ایک طویل اور کربناک جدوجہد کی علامت ہیں، جس میں انہوں نے ریاستی بے حسی کو قریب سے دیکھا ہے، ان کا مؤقف ہے کہ ریاست حقیقت سے منہ نہیں موڑ سکتی اور بلوچ قوم اپنے حق کے لیے آواز بلند کرتی رہے گی جب تک سچائی کو تسلیم نہ کر لیا جائے۔