بلوچ جبری گمشدگیاں و سیاسی گرفتاریاں: کراچی اور اسلام آباد میں دھرنے جاری

29

بلوچ سیاسی قیادت کی گرفتاریوں اور جبری گمشدگیوں کے خلاف کراچی اور اسلام آباد میں دھرنوں کا سلسلہ آج بھی جاری رہا۔

بلوچستان میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کی گرفتاریوں، انصاف کی عدم فراہمی اور کراچی و بلوچستان سے جبری طور پر لاپتہ کیے گئے افراد کے اہلخانہ کراچی اور اسلام آباد میں پریس کلبوں کے سامنے دھرنا دے کر اپنے پیاروں کی بازیابی اور انصاف کا مطالبہ کررہے ہیں۔

اسلام آباد میں جاری دھرنے کو آج 23 روز مکمل ہو چکے ہیں، شرکاء بی وائی سی قیادت کی سیاسی گرفتاریوں، عدالتوں سے انصاف کی عدم فراہمی اور بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔

دھرنے کے شرکاء نے اس موقع پر بلوچ قوم سمیت تمام طبقات، شہریوں اور باشعور افراد سے اپیل کی ہے کہ وہ اس دھرنے میں شامل ہوکر ان کی آواز بنیں۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے پیاروں کی رہائی اور انصاف کی فراہمی تک احتجاج جاری رکھیں گے۔

اس دوران متعدد سیاسی و انسانی حقوق کے رہنماؤں اور کارکنان نے دھرنے کے مقام پر آکر لواحقین سے اظہارِ یکجہتی کیا، تاہم اسلام آباد پولیس کی جانب سے رکاوٹوں کا سلسلہ تاحال برقرار ہے۔

دوسری جانب کراچی کے علاقے لیاری سے تعلق رکھنے والے 25 سالہ طالبعلم زاہد علی کی جبری گمشدگی کے خلاف کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ آج تیسرے روز بھی جاری رہا۔

زاہد علی کو 17 جولائی 2025 کو پاکستانی فورسز نے حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کر دیا تھا، ان کے اہلخانہ ان کی فوری بازیابی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

لواحقین کے مطابق زاہد علی کراچی یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے شعبے کا طالبعلم ہے وہ جزوقتی رکشہ چلا کر نہ صرف اپنی تعلیم کے اخراجات پورے کرتا تھا بلکہ اپنے خاندان کی مالی ضروریات میں بھی معاونت کرتا تھا۔

ان کے والد عبدالحمید پرانے ہیپاٹائٹس کے مریض ہیں اور بیٹے کی آمدنی پر انحصار کرتے تھے، اہلخانہ نے مطالبہ کیا ہے کہ زاہد علی کو فوری طور پر منظرِ عام پر لاکر رہا کیا جائے۔