بلوچستان میں غیرت کے نام پر قتل کے بڑھتے واقعات: عورت فاؤنڈیشن اور خواتین کے تحفظ کی تنظیموں کا شدید ردعمل

5

عورت فاؤنڈیشن اور خواتین پر تشدد کے خلاف کام کرنے والی تنظیموں کے اتحاد (ای وی اے ڈبلیو این جی الائنس) نے بلوچستان میں غیرت کے نام پر ہونے والے لرزہ خیز واقعات پر شدید تشویش اور مذمت کا اظہار کیا ہے۔

 ان تنظیموں نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ خواتین اور بچیوں پر بڑھتے ہوئے بہیمانہ تشدد کے یہ واقعات نہ صرف انسانی اقدار اور سماجی تحفظ کے منافی ہیں بلکہ ریاستی دعوؤں کی بھی کھلی نفی کرتے ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ حالیہ دنوں میں خضدار، بھاگ، مستونگ، اوستہ محمد، سریاب، خروٹ آباد اور دیگر علاقوں سے ایسے دل دہلا دینے والے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جہاں غیرت کے نام پر بیوی کا قتل، بچیوں کا گلا گھونٹ کر مار دینا، والد کی جانب سے بیٹی سے مبینہ جنسی زیادتی، اور قریبی رشتہ داروں کی جانب سے چالاکی سے معصوم بچیوں کو قتل کرنے جیسے جرائم شامل ہیں۔

عورت فاؤنڈیشن اور ای وی اے ڈبلیو این جی الائنس نے ان واقعات کو بلوچستان کی نہایت خوفناک اور افسوسناک تصویر قرار دیتے ہوئے حکومتِ بلوچستان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ ان مجرمانہ واقعات کی روک تھام اور خواتین و بچیوں کے تحفظ کے لیے فوری، مؤثر اور سخت اقدامات کیے جائیں تاکہ صوبے کی خواتین اور بچیوں کو ایک محفوظ مستقبل فراہم کیا جا سکے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز بلوچستان میں صرف 12 گھنٹوں کے دوران غیرت کے نام پر قتل کے دو المناک واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں دو خواتین سمیت چار افراد جان بحق ہوگئے۔

لیویز حکام کے مطابق پہلا واقعہ ضلع خضدار کی تحصیل زہری میں پیش آیا، جہاں غیرت کے نام پر ایک شخص نے اپنی اہلیہ مسماۃ (ر) سمیت ایک اور شخص کو فائرنگ کرکے قتل کر دیا۔

دوسرا واقعہ ضلع بولان کے علاقے بھاگ کے نواحی گاؤں غلام مصطفیٰ پسر مغیری میں پیش آیا، جہاں احمد خان قوم ہالا نے اپنی بیوی رابعہ اور ایک شخص محمد آصف ولد فاضل قوم ہالا کو گولی مار کر قتل کر دیا۔

دونوں وارداتوں کے بعد ملزمان فرار ہوگئے، اور تاحال کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آ سکی ہے۔

اس سے چند روز قبل 21 اگست کو، بلوچستان کے علاقے ڈیرہ مراد جمالی، تھانہ تمبو کی حدود میں واقع خان کوٹ میں ایک خاتون اور ایک شخص کو فائرنگ کرکے قتل کر دیا گیا تھا، جس کے بعد رواں ماہ (اگست) کے دوران غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کی تعداد چار ہو گئی ہے۔

اسی طرح جولائی 2025 میں مستونگ، نصیر آباد اور اوستہ محمد سے بھی ایک ایک واقعہ رپورٹ ہوا، جہاں خواتین کو مردوں کے ہمراہ غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔

رواں سال غیرت کے نام پیش آنے والے قتل کے واقعات میں ڈغاری واقعہ بھی شامل ہے جہاں بانو اور احسان نامی شخص کو کیمروں کے سامنے قتل کیا گیا۔

عورت فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق، بلوچستان میں 2019 سے 2024 کے دوران غیرت کے نام پر قتل کے 212 واقعات رپورٹ ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق ان چھ برسوں میں درج ذیل اعداد و شمار سامنے آئے:

سال 2019 میں 52 افراد قتل ہوئے 2020 میں 51 افراد قتل ہوئے  2021 یے تعداد 24 تھی اور سال 2022 میں 28 افراد کا غیرت کے پر قتل رپورٹ ہوئے 2023 میں بھی یے تعداد 24 رہی جبکہ گذشتہ سال 33 افراد بلخصوص خواتین غیرت کے پر قتل ہوئے ہیں، جبکہ 2025 کے اعداد و شمار ابھی شامل نہیں کیے گئے۔

رپورٹ کے مطابق ان چھ برسوں میں ضلع نصیر آباد غیرت کے نام پر قتل کے سب سے زیادہ واقعات کا شکار رہا جب کہ جعفرآباد، جھل مگسی، مستونگ، کچھی، کوئٹہ، قلات، صحبت پور، لورالائی، اور خضدار بھی متاثرہ اضلاع میں شامل ہیں۔

عورت فاؤنڈیشن کے مطابق یہ صرف وہ کیسز ہیں جو رپورٹ ہوئے درجنوں ایسے واقعات بھی ہیں جو مقامی دباؤ، بدنامی کے خوف، یا قبائلی و جرگہ نظام کی مداخلت کی وجہ سے رپورٹ ہی نہیں ہو پاتے یا منظر عام پر نہیں آتے۔

رپورٹ میں اس امر پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ زیادہ تر کیسز میں یا تو ملزمان گرفتار نہیں ہوتے یا پھر قانونی کارروائیاں مکمل نہیں ہو پاتیں عدالتوں میں مقدمات کی سست روی، پولیس کا عدم تعاون، اور سیاسی و قبائلی دباؤ ان معاملات میں انصاف کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔