بلوچستان میں انٹرنیٹ کی بندش اور تحریکِ آزادی: تاریخ، حقیقت اور ریاستی وہم – داد جان بلوچ

25

بلوچستان میں انٹرنیٹ کی بندش اور تحریکِ آزادی: تاریخ، حقیقت اور ریاستی وہم

تحریر: داد جان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جب بھی کوئی نوآبادیاتی ریاست کسی محکوم قوم کی آواز دبانا چاہتی ہے، تو سب سے پہلا وار وہ اطلاعات کے بہاؤ پر کرتی ہے سنسرشپ، بلیک آؤٹ، اور آج کے دور میں انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن۔ پاکستان میں بلوچ تحریکِ آزادی کو دبانے کے لیے بھی یہی نسخہ آزمایا جا رہا ہے۔ مگر سوال یہ ہے: کیا تحریکِ آزادی کو انٹرنیٹ کی عدم دستیابی سے روکا جا سکتا ہے؟ تاریخ، تجربہ اور بلوچستان کی زمینی حقیقت اس سوال کا ایک دوٹوک جواب دیتی ہے نہیں۔

بلوچستان: نوآبادیاتی بقا کی جنگ

بلوچستان کوئی محض جغرافیہ نہیں، بلکہ ہزاروں سال پرانی تہذیب، ثقافت، اور خودمختار شعور کی حامل سرزمین ہے۔ 1948 میں پاکستان کے ساتھ جبری الحاق کے بعد سے بلوچ عوام اس قبضے کو تسلیم نہیں کرتے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے بلوچ قومی مزاحمت کا بیج بویا گیا، جو آج ایک تناور درخت بن چکا ہے۔

بلوچ تحریک کی بنیادیں محض معاشی استحصال یا محرومی پر نہیں، بلکہ قومی خود ارادیت، زمین پر حقِ ملکیت، اور تاریخی خودمختاری پر قائم ہیں۔ یہی وہ شعور ہے جو صرف انٹرنیٹ کے ذریعے نہیں پھیلا بلکہ نسل در نسل، سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا رہا ہے اور اب ریاست اسے سگنل بند کر کے ختم کرنے کا خواب دیکھتی ہے۔

ریاستی ہتھکنڈے: خاموشی مسلط کرنے کی ناکام کوشش

بلوچستان میں انٹرنیٹ بندش کا پہلا بڑا استعمال اس وقت سامنے آیا جب پاکستانی فورسز نے آپریشن زدہ علاقوں جیسے کیچ، پنجگور، اور آواران میں فوجی کاروائیاں کیں۔ انٹرنیٹ بندش کا مقصد یہ تھا تھا

1. انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو عالمی نظروں سے چھپانا

2. بلوچ قومی بیانیے کی سوشل میڈیا پر رسائی محدود کرنا

3. مزاحمتی قوتوں کے درمیان رابطہ توڑنا

4. عوام کو معلومات سے محروم رکھنا

مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ نہ تو بلوچ مزاحمت کمزور ہوئی، نہ آواز رُکی، اور نہ عزم ٹوٹا۔

بلوچ مزاحمت: ایک نظریہ، ایک قربانی، ایک مسلسل جدوجہد

بلوچ تحریک کی روح صرف بندوق یا سوشل میڈیا میں نہیں، بلکہ اس لاپتہ طالب علم میں ہے جسے جبری طور پر اٹھایا گیا، اس ماں میں ہے جو دہائیوں سے اپنے بیٹے کی تصویر اٹھائے عدالتوں کے چکر لگا رہی ہے، اور اس سرمچار میں ہے جو پہاڑوں میں محصور ہو کر بھی آزادی کا خواب آنکھوں میں بسائے رکھتا ہے۔ آخری گولی کی فلسفے پر کار بند رہتا ہے۔

بلوچ تحریک انٹرنیٹ پر ٹویٹس سے شروع نہیں ہوئی، نہ ہی یہ فیس بک کی پوسٹس سے پنپ رہی ہے۔ یہ تو اس وقت بھی زندہ تھی جب بلوچستان میں موبائل فون بھی عام نہ تھے۔ اس کا محرک وہ تاریخی احساسِ محرومی، جبر، اور نوآبادیاتی قابض کے خلاف نفرت ہے جو بلوچ نسل در نسل اپنے اندر سمیٹتے آ رہے ہیں۔

عالمی تناظر: ویتنام، الجزائر، کیوبا سے بلوچ تحریک تک

دنیا کی تمام بڑی مزاحمتی تحریکوں کو اگر دیکھا جائے ویتنام کی امریکہ کے خلاف جنگ، الجزائر کی فرانس کے خلاف مزاحمت، اور کیوبا کی انقلابی تحریک ان سب میں ایک بات مشترک تھی: ان کے پاس نہ انٹرنیٹ تھا، نہ عالمی میڈیا کی مکمل رسائی، مگر ان کے پاس “نظریہ، عزم اور اجتماعی شعور” تھا۔

بلوچستان کی تحریک بھی اسی صف میں آتی ہے۔ جب ایک قوم کا وجود خطرے میں ہو، اس کے لاشیں بے نام قبروں میں دفن کیے جائیں، اس کے طالب علم صرف اپنی شناخت کی وجہ سے غائب کیے جائیں، تو اس وقت مزاحمت صرف ایک آپشن نہیں، بلکہ ایک ناگزیر عمل بن جاتی ہے۔

ریاستی وہم: ٹیکنالوجی سے تحریکوں کو ختم کرنے کی کوشش

ریاست اگر سمجھتی ہے کہ بلوچ نوجوان کو انٹرنیٹ سے کاٹ کر “خاموش” کر دیا جائے گا، تو یہ تاریخی طور پر ایک فاش غلطی ہے۔ بلوچ تحریک محض ڈیجیٹل سرگرمی نہیں، بلکہ ایک تاریخی، ثقافتی، اور سیاسی بقا کی جنگ ہے۔ یہ تحریک سوشل میڈیا کی پالیسیوں سے نہیں، بلکہ بلوچ ماں کی آنکھوں کے آنسو، شہیدوں کے خون، اور زندانوں میں گونجتی صداؤں سے زندہ ہے۔

بلوچ تحریک کا مستقبل اور انٹرنیٹ بندش کی حقیقت

بلوچ تحریک اس وقت بھی جاری رہے گی جب تمام سگنلز بند ہوں گے، جب تمام میڈیا خاموش ہو گا، اور جب دنیا آنکھیں بند کرے گی۔ کیونکہ یہ تحریک اس بنیاد پر قائم ہے جسے کوئی ریاستی جبر چھین نہیں سکتا “قوم پرستی، مزاحمت، اور آزادی کا غیر متزلزل خواب”۔

لہٰذا ریاست کو یہ سمجھنا چاہیے کہ بلوچ تحریک کو دبانے کے لیے انٹرنیٹ بند کرنا، ایسا ہی ہے جیسے سورج کو چھپانے کے لیے پردے تاننا___ وقتی سکوت، مگر مستقل ناکامی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔