بلوچستان میں انٹرنیٹ بلیک آؤٹ: طلبہ، کاروباری افراد اور صحافی شدید متاثر

17

بلوچستان بھر میں گزشتہ روز سے انٹرنیٹ سروس مکمل طور پر معطل ہے جس کے باعث صوبے میں تعلیمی سرگرمیاں، آن لائن کاروبار اور میڈیا کی رپورٹنگ شدید متاثر ہوچکی ہے۔

حکام کا مؤقف ہے کہ انٹرنیٹ معطلی کا فیصلہ اگست کے مہینے میں سیکیورٹی کشیدگی کے تناظر میں کیا گیا ہے۔

انٹرنیٹ کی بندش کے باعث آن لائن کلاسز میں شریک طلبہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں مختلف تعلیمی اداروں سے وابستہ طلبہ کا کہنا ہے کہ وہ نہ تو آن لائن کلاسز لے پا رہے ہیں اور نہ ہی اسائنمنٹس جمع کرانے کے قابل ہیں۔

دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے لیے یہ صورتحال مزید سنگین ہے جہاں پہلے ہی تعلیمی سہولیات نہایت محدود ہیں۔

اسی طرح فری لانسرز اور آن لائن کاروبار سے وابستہ ہزاروں افراد بھی بری طرح متاثر ہو چکے ہیں کوئٹہ، تربت، پنجگور اور خضدار سے تعلق رکھنے والے کاروباری افراد کا کہنا ہے کہ ہمارا مکمل انحصار انٹرنیٹ پر ہے اور اس بندش نے ہمیں مالی تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔

میڈیا ادارے بھی اس بندش سے شدید متاثر ہیں بلوچستان سے خبریں باہر بھیجنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے، صحافیوں کا کہنا ہے کہ ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں، وہ رپورٹ نہیں کر پا رہے گویا بلوچستان مکمل طور پر اطلاعاتی بلیک آؤٹ کی زد میں آچکا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس صورتحال پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کی بندش نہ صرف شہری آزادیوں کی سنگین خلاف ورزی ہے بلکہ یہ عوام کے تعلیم، معیشت اور معلومات تک رسائی کے بنیادی حق پر بھی حملہ ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی پی ٹی اے کی ہدایات پر بلوچستان بھر میں موبائل انٹرنیٹ سروس معطل کردی گئی ہے، جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق اگست کے پورے مہینے کے دوران بلوچستان میں موبائل انٹرنیٹ سروس معطل رہے گی۔

مقامی سیاسی و سماجی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پی ٹی اے نے یہ اقدامات اگست، خصوصاً 14 اگست یومِ آزادی کے موقع پر منعقدہ تقریبات پر ممکنہ حملوں اور مسلح تنظیموں کی متوقع کارروائیوں کی خبروں کو روکنے کے لیے کیے ہیں۔

تنظیموں کا مزید کہنا ہے کہ ایسے اقدامات سے عام شہریوں کو نقصان پہنچ رہا ہے اور حکومت سیکیورٹی کی صورتحال بہتر بنانے کے بجائے پورے عوام کو اجتماعی سزا دے رہی ہے۔