بلوچستان میں اعتماد کی بحالی اور تنازع کے حل کے لیے سیاسی مکالمہ اور انسانی حقوق کی پاسداری ناگزیر ہے۔ ایچ آر سی پی

35

ہیومن راٹس کمیشن پاکستان کے جاری پریس ریلیز کے مطابق بلوچستان میں ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن کے بعد پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے بلوچستان کو درپیش انسانی حقوق کے بحران پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ مشن کی رپورٹ میں ایک تشویشناک رجحان دیکھا گیا ہے کہ جبری گمشدگیوں کا سلسلہ جاری ہے، جمہوری آزادیاں محدود ہو رہی ہیں، صوبائی خودمختاری کمزور پڑ رہی ہے اور قانون سے بالاتر رہنے کا رویہ بے لگام ہے، یہ تمام عوامل عوامی بیگانگی اور سیاسی عدم استحکام کو مزید بڑھا رہے ہیں۔

پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ مشن کے مطابق، اگرچہ ریاستی نمائندے اب جبری گمشدگیوں کے وجود کا اعتراف کرتے ہیں، تاہم وہ اسے ایک ایسے سکیورٹی بیانیے کے تناظر میں پیش کرتے ہیں جو اسے بغاوت کا محض ایک ضمنی نتیجہ قرار دیتا ہے یہ بیانیہ اس خطرے کو جنم دیتا ہے کہ ایک ایسے فعل کو معمول بنا دیا جائے جو بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کے مطابق انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ رپورٹ میں ان الزامات کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے جو اُن افراد کے خلاف ممکنہ انتقامی کارروائیوں سے متعلق ہیں جو جبری گمشدگیوں پر آواز بلند کرتے ہیں۔

مشن کا کہنا ہے کہ اگرچہ غیر بلوچ آباد کاروں سمیت عام شہریوں کو نشانہ بنانے والے عسکریت پسند حملے کسی طور بھی قابلِ جواز نہیں اور ان میں ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے، تاہم انسدادِ دہشت گردی (بلوچستان ترمیمی) ایکٹ 2025 کی منظوری انتہائی تشویش ناک ہے۔ یہ قانون 90 دن تک حراست کی اجازت دیتا ہے، وہ بھی مؤثر عدالتی نگرانی کے بغیر، جس سے تشدد اور بدسلوکی کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔ مشن نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس قانون کو واپس لیا جائے اور اس کے بجائے یہ یقینی بنایا جائے کہ انسدادِ دہشت گردی سے متعلق تمام اقدامات پاکستان کی انسانی حقوق کی ذمہ داریوں سے ہم آہنگ ہوں۔

رپورٹ کے مطابق انتخابی عمل میں دھاندلی اور قوم پرست جماعتوں کو سیاسی طور پر الگ تھلگ کرنے سے عوام کا جمہوری نظام پر اعتماد بری طرح مجروح ہوا ہے۔ مشن نے تجویز دی ہے کہ ریاست شفافیت، انصاف اور جوابدہی کو یقینی بنائے، دھاندلی کے معتبر الزامات کی تحقیقات کرے اور انتظامی ڈھانچوں کو غیر سیاسی بنائے تاکہ سیاسی بیگانگی مزید نہ بڑھے۔

مشن نے قانون نافذ کرنے والے سویلین اداروں کو عسکریت سے پاک کرنے اور ایک یکجا شہری پولیس فورس کے قیام کی سفارش کی ہے جس کے پاس مقامی کمیونٹی پر مبنی اور انسانی حقوق سے ہم آہنگ پولیسنگ کے لیے مناسب وسائل اور تربیت موجود ہو، تاکہ نیم فوجی اور فوجی اداروں پر ضرورت سے زیادہ انحصار ختم کیا جا سکے۔

رپورٹ میں سول سوسائٹی کی تحریکوں، جیسے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی، کو غیر معتبر بنانے کے عمل کی بھی نشاندہی کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ انسانی حقوق کی ایڈووکیسی کو عسکریت پسندی سے جوڑنے سے خاص طور پر نوجوانوں میں بیگانگی کا احساس مزید بڑھ رہا ہے۔ ریاست کو چاہیے کہ وہ انسانی حقوق کے دفاع کاروں کے کردار کو کھلے عام تسلیم کرے اور ان کے تحفظ کی ضمانت دے۔

مشن نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ 18ویں آئینی ترمیم کے تحت حاصل شدہ آئینی تحفظات بحال کرے اور قدرتی وسائل کے انتظام میں صوبائی خودمختاری کا احترام کرے۔ سینڈک جیسے متنازع منصوبوں اور بلوچستان مائنز اینڈ منرل ایکٹ میں حالیہ ترامیم پر نظرِ ثانی کی جائے تاکہ مقامی لوگوں کی مشاورت اور فوائد کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جا سکے۔

اگر ریاست نے شفاف، جامع اور انسانی حقوق پر مبنی سیاسی حل فوری طور پر نہ اپنایا تو بلوچستان میں سیاسی اور سکیورٹی حالات مزید بگڑتے جائیں گے۔ مشن نے خبردار کیا ہے کہ صوبے سے باہر نسلی بنیادوں پر انتقامی کارروائیوں کا خطرہ حقیقی ہے اور یہ مزید بڑھ رہا ہے، جو قومی یکجہتی کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس لیے، مشن نے مزید عسکریت کے بجائے اصولی قیادت کی ضرورت پر زور دیا ہے۔