بلوچستان میں اسٹرکچرل وائلنس اور ریاستی جبر: ایک نوآبادیاتی تسلسل – داد جان بلوچ

174

بلوچستان میں اسٹرکچرل وائلنس اور ریاستی جبر: ایک نوآبادیاتی تسلسل

تحریر: داد جان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

“جب ریاست صرف زمین پر نہیں، روح اور شعور پر بھی قبضہ جما لے، تو جبر کی شکلیں صرف گولیوں میں نہیں، خاموشی، پسماندگی اور محرومی میں بھی جلوہ گر ہوتی ہیں۔”

پاکستان نے جب سے بلوچستان پر اپنی ریاستی بالادستی قائم کی، اس دن سے یہاں استعماری طرزِ حکمرانی، وسائل کی بے دریغ لوٹ مار، جبری گمشدگیوں، اور عسکری جارحیت کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ بظاہر یہ سب انسانی حقوق کی پامالی یا عسکری تسلط کے مظاہر لگتے ہیں، مگر اگر گہرائی میں دیکھا جائے تو یہ دراصل “اسٹرکچرل وائلنس” یعنی ساختیاتی تشدد کی ایسی پیچیدہ اور منظم شکل ہے جو ریاستی اداروں، قانونی نظام، تعلیمی و معاشی پالیسیوں اور سماجی ڈھانچوں کے ذریعے بلوچ قوم پر مسلط کی گئی ہے۔

اسٹرکچرل وائلنس کیا ہے؟

اس اصطلاح کو معروف نارویجن ماہرِ امن جوہان گالٹن (Johan Galtung) نے متعارف کروایا۔ یہ ایسا غیر مرئی اور غیر جسمانی تشدد ہے جو ریاستی و سماجی ڈھانچوں کے ذریعے مخصوص گروہوں کو مسلسل نقصان پہنچاتا ہے، ترقی کے مواقع سے محروم رکھتا ہے، اور سماجی ناانصافی کو معمول بنا دیتا ہے۔

بلوچستان میں یہ تشدد کئی شکلوں میں نمایاں ہے:

تعلیمی محرومی → شعور کی گرفت

معاشی استحصال → غربت اور بے اختیاری

سیاسی اخراج → نمائندگی سے محرومی

قانونی جبر → انصاف سے محروم رکھا جانا

یہ سب مل کر ایک ایسے جبر کی شکل اختیار کرتے ہیں جو بندوق سے زیادہ دیرپا، اور خاموشی سے تباہ کن ہے۔

وسائل کی نوآبادیاتی لوٹ مار

بلوچستان میں ریاستی قبضے کا سب سے نمایاں مظہر یہاں کے قدرتی وسائل پر غیر مقامی کنٹرول ہے۔ ریکوڈک، سیندک، سوئی گیس، اور گوادر جیسے منصوبے بظاہر ترقی کا استعارہ ہیں، مگر ان کے حقیقی ثمرات صرف وفاقی اداروں، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور پنجاب و دیگر غیر مقامی اشرافیہ کو پہنچتے ہیں۔ بلوچستان کی گیس پورے ملک کو توانائی دیتی ہے، مگر دُکّی، کوہلو، خضدار اور پنجگور جیسے اضلاع آج بھی لکڑی یا گوبر سے چولہا جلاتے ہیں۔

یہ معاشی استحصال محض غفلت نہیں بلکہ ایک منظم نوآبادیاتی پالیسی کا حصہ ہے جس کا مقصد بلوچ سماج کو غربت، بے بسی اور انحصار میں رکھنا ہے۔

تعلیم و صحت: نرمی میں چھپا تشدد

بلوچستان میں تعلیم کی شرح پاکستان میں سب سے کم ہے۔ اسکولوں کی عمارتیں یا تو ویران ہیں یا فوجی کیمپوں میں بدل چکی ہیں۔ بچیوں کی تعلیم کا تناسب خطرناک حد تک کم ہے۔ صحت کے مراکز میں ادویات ناپید ہیں اور اکثر مقامات پر ڈاکٹر ہی موجود نہیں ہوتے۔

یہ سب صورتحال کسی وقتی یا اتفاقی ناکامی کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی ریاستی حکمت عملی ہے جو بلوچ سماج کو شعور، صحت اور خود اختیاری سے دور رکھنے کے لیے ترتیب دی گئی ہے۔

جبری گمشدگیاں اور خاموشی کا خوف

بلوچستان میں ہزاروں سیاسی کارکن، طلباء، صحافی اور عام شہری جبری طور پر لاپتہ کیے جا چکے ہیں۔ یہ عمل ریاستی جبر کی سب سے بھیانک شکل ہے، جو پورے معاشرے میں خوف کو بطور حکمتِ عملی پھیلاتا ہے۔ لاپتہ افراد کی مائیں، بہنیں اور بیٹیاں برسوں سے سڑکوں پر احتجاج کر رہی ہیں، مگر ریاستی اداروں کی بے حسی اور مجرمانہ خاموشی اس جبر کو جائز قرار دیتی ہے۔

عسکری تسلط اور مقامی سماج کی نفسیاتی شکست

بلوچستان کے ہر ضلع اور قصبے میں فوجی کیمپ قائم ہیں۔ ان کی موجودگی صرف دفاعی نہیں بلکہ سماجی، ثقافتی، اور نفسیاتی تسلط کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ نوجوانوں کو شک کی بنیاد پر اٹھانا، گھروں پر چھاپے مارنا، اور تعلیمی اداروں کو چھاؤنیوں میں بدل دینا روز کا معمول ہے۔ یہ سب بلوچ سماج کو ایک مستقل خوف اور بے بسی میں رکھ کر سیاسی اطاعت اور فکری غلامی کی طرف دھکیل رہا ہے۔

بلوچ عورت: مزاحمت کی نئی علامت

بلوچ عورت، جو روایتی طور پر خاندان اور قبیلے کی تہذیبی محافظ سمجھی جاتی تھی، اب مزاحمت کی سب سے توانا آواز بنتی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، سمی دین بلوچ اور دیگر کئی خواتین اپنی گمشدہ عزیزوں کے لیے نہ صرف سڑکوں پر نکلی ہیں بلکہ ریاستی بیانیے کو بھی چیلنج کر رہی ہیں۔ ان کی جدوجہد یہ واضح کرتی ہے کہ بلوچ قوم صرف بندوق سے نہیں، بلکہ علم، احساس اور عزم سے بھی لڑ سکتی ہے۔

بلوچ قومی سوال اور عالمی ضمیر کی آزمائش

بلوچستان میں اسٹرکچرل وائلنس صرف آئینی اصلاحات یا وفاقی وعدوں سے ختم نہیں ہو سکتا۔ یہ مسئلہ ایک قوم کے وجود، خودمختاری، زبان، وسائل، اور شناخت کے بنیادی حق سے جڑا ہوا ہے۔ جب تک بلوچ عوام کو اپنی زمین، وسائل اور سیاست پر خود مختاری نہیں دی جاتی، یہ جبر اپنی شکلیں بدلتا رہے گا۔

انسانی حقوق کی تنظیموں، عالمی اداروں اور باشعور شہریوں کو اس خاموش مگر دیرپا تشدد کو تسلیم کرنا اور اس کے خلاف آواز بلند کرنا ہوگی۔ ورنہ تاریخ ہمیں ان مظالم کے خاموش تماشائیوں کے طور پر یاد رکھے گی۔

اختتامیہ:

بلوچستان میں ریاستی جبر اب محض ایک واقعہ یا چند افراد کا المیہ نہیں، بلکہ یہ ایک ساختیاتی، منظم اور نوآبادیاتی تسلسل ہے۔ اس جبر کو سمجھنا، بے نقاب کرنا، اور اس کے خلاف مزاحمت کرنا ہر اس فرد کی ذمہ داری ہے جو انصاف، برابری، اور انسانی حرمت پر یقین رکھتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔