لواحقین و بلوچ سیاسی کارکنان گذشتہ کئی روز سے مرکزی شہروں کے پریس کلبز کے باہر دھرنوں پر موجود انصاف کا مطالبہ کررہے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق بلوچستان سمیت کراچی سے بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگیاں، بلوچستان میں سیاسی کارکنان کی گرفتاری، انصاف کی عدم فراہمی، لاپتہ افراد کی بازیابی اور بلوچ نوجوان کے قتل کے خلاف دھرنے جاری ہیں۔
اسلام آباد میں سیاسی گرفتاریوں و جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری طویل احتجاجی دھرنے کو آج پچیس دن مکمل ہوگئے ہیں، جہاں پولیس ہراسانی اور رکاوٹوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
اسلام آباد دھرنے میں شریک بلوچ لواحقین کا مؤقف ہے کہ پچیس دن گزر گئے کوئی حکومتی نمائندہ انسے بات کرنے نہیں آیا، اس کے باوجود وہ بلوچوں پر بات چیت سے گریز کا الزام لگاتے ہیں۔
انہوں نے کہا ستم ظریفی یہ ہے کہ وہی ریاست اور اس کے ادارے پرتشدد مظاہرین کے ساتھ مذاکرات کے لیے جلدی کرتے ہیں، یہاں تک کہ انہیں گھر جانے کے لیے نقد رقم ادا کرتے ہیں لیکن ہم جو پرامن احتجاج کرتے ہیں خاموشی اور جبر کا سامنا کرتے ہیں یہ دو پاکستان کی حقیقت ہے۔
دوسری جانب کراچی سے جبری گمشدگی کا شکار بلوچ طالب علم زہد علی بلوچ کے والدین سمیت اہلِ خانہ آج پانچویں روز بھی کراچی پریس کلب کے سامنے دھرنے پر موجود ہیں اور بیٹے کی بازیابی کا مطالبہ کررہے ہیں۔
مزید برآں رواں سال پاکستانی فورسز کی فائرنگ سے جانبحق ہونے والے احسان شاہ کی والدہ فورسز اہلکاروں کی عدم گرفتاری کے خلاف دھرنا دیے بیٹھی ہیں۔
احسان شاہ کی والدہ گذشتہ پانچ روز سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے دھرنے پر موجود ہیں، ان کا مطالبہ ہے کہ بیٹے کے قتل میں ملوث اہلکاروں کو گرفتار کرکے سزا دی جائے، تاہم ایف آئی آر ہونے کے باوجود تاحال کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی جا سکی ہے۔