بلوچستان — سلسلہ ٹوٹنے نا پائے!
تحریر: شَنکو بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور ان کی ٹیم کو سب سے بڑی کریڈٹ جو میں دینا چاہتا ہوں وہ ہے بلوچ قوم کو دہائیوں بعد متحرک اور موبائل کرنے کا۔ ان کی تحریک نے ہر گھر میں سوئے ہوئے کو جگایا اور ہر غافل بلوچ، جو کہ اپنی ذاتی زندگیوں کی خوشیوں پر اکتفا کر بیٹھا تھا، کو بیدار کیا۔
سردار مینگل نے انہی تمام کاوشوں پر پانی پھیرتے ہوئے بلوچ قوم کے جذبات کو ماضی کی طرح کسی اور رخ دینے کے لیے برائے نام لانگ مارچ کیا جس کا سب سے بڑا ثبوت ڈرے سہمے راستے سے واپسی ہے! یہ ان کا سیاہ کردار ہے جو سب پر عیاں ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی بلوچ قوم نے کسی غیر معمولی واقعے کے بعد کچھ کر گزرنے کا تہیہ کیا یا قومی اجتماعات کو صحیح رخ دینے کا وقت آن پہنچا، سردار مینگل جیسے کاسہ لیسوں نے عوامی طاقت کو غلط رخ دینے کے لیے اپنا بھرپور سیاہ کردار ادا کیا۔
بی وائی سی رہنماؤں نے جس طرح مزاحمت، سڑکوں کی بندش اور ڈھٹ کر ریاستی اداروں کی مقابلہ کرنے کا جو ماحول پیدا کیا تھا وہ سب ایک گناہ گار کھیل اور “لانگ مارچ” کی نذر ہوگیا۔ عین ممکن ہے کہ ڈاکٹر ماہ رنگ سمیت دیگر رہنماؤں کی گرفتاری کے بعد لوگ غیر معینہ مدت تک سڑکوں پر بیٹھتے، ریڈ زون کراس کرتے یا کہیں بھی بڑی عوامی تحریک کی شکل اختیار کرتے مگر سب خاک میں مل گئی اور عوامی جذبات اور احساسات کو ماضی کی طرح اس بار بھی عین وقت پر ٹھنڈا کرنے اور غلط رخ دینے کے لیے سرکاری “تالی چٹ” آن پہنچے اور لکھ پاس سے آگے نہ گزرنے کا ڈرامہ رچاتے رہے۔
اب دوبارہ سے وہ وقت آن پہنچا ہے کہ بلوچ قوم متحد ہو، سردار قلندرانی کے چوتھے بیٹے سمیت دیگر نوجوانوں کی جبری گمشدگی، دیگر بلوچ بھائیوں کی مسخ شدہ لاشوں کا ملنا اور حدِ آخر، بلوچ ماں بہنوں کا اسلام آباد کی سڑکوں پر یوں تذلیل، ایک ایسی جواز فراہم کرتے ہیں جس کو لیکر بلوچ ایک بے رحم تحریک شروع کرسکتا ہے۔ یہی وہ وقت ہے کہ قوم سڑکوں پر نکلے اور بے رحمی سے نکلے۔ سردار مینگل لکھ پاس سے آگے اس لیے نہیں گئے کہ عین ممکن ہے کہ ریاست بے گناہ اور معصوم لوگوں پر بے رحمی سے لاٹھی چارج اور فائرنگ کھول کر انہیں موت کے گھاٹ اتاردے۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا بلوچستان کے سڑکوں پر سالانہ سینکڑوں لوگ بے مقصد نہیں مرتے؟ کیا حکومتی ناقص پالیسیوں کے تحت خرابی صحت اور عدم سہولیات کی وجہ سے سینکڑوں لوگ اموات کا شکار نہیں ہوتے؟ اگر سڑکوں پر پانچ دس کسی مقصد کے لیے مرتے ہیں تو دونوں کا تقابل کیا؟ ایک طرف ہزاروں بے مقصد اور ایک طرف دسیوں بامقصد موت کے شکار۔
کیا مقصد کے لیے مرنے والے بھی مرتے ہیں؟ کیا شہید زندہ نہیں ہوتے؟
اب بھی وقت ہے کہ بلوچستان کے لوگ سڑکوں پر حادثات کا شکار ہو کر، نشہ آور چیزوں کی وجہ سے یا بیماریوں کی وجہ سے مرنے سے پہلے کسی مقصد کے لیے دشمن کی گولی سے مرے۔ بامقصد موت مرے اور وطن کے لیے اپنے خون کے ایک ایک قطرے بہانے کو باعث فخر سمجھیں۔ اٹھیں اور “سیال” کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بتائیں کہ بلوچ کی شان تمہاری غلط پالیسیوں سے نہیں بلکہ گولی سے مرنے میں ہی ہے۔
یقین کریں کہ بلوچستان میں ایسی خاموشی اور خوف کا سماں دشمن کو خوش کر سکتا ہے۔ خدارا خود کی دشمن کو شادی مت کریں۔ اٹھیں، ایک بار پھر اٹھیں۔ جاگو اور جگائیے۔ وہ سلسلہ جو شروع ہوا تھا ٹوٹنے نہ پائے۔ سلسلہ! مزاحمت کی، شہادت کی اور بے رحم کھینچ پکار اور جدوجہد کی۔ سلسلہ ٹوٹنے نہ پائے!!!
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔