بلوچستان — خاموش سرزمین کی بلند صدائیں – عابد بلوچ

18

بلوچستان — خاموش سرزمین کی بلند صدائیں

تحریر: عابد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان، وہ خطہ جہاں انسان ہزاروں سال سے آباد ہیں، ایک ایسی سرزمین جسے دنیا بلوچستان کے نام سے جانتی ہے۔ “بلوچ” ازل سے اس دھرتی کے اصل باشندے ہیں، اور “استان” کا مطلب ہے وطن — یوں “بلوچوں کا وطن” بلوچستان کہلاتا ہے۔ قدرت نے اس خطے کو بے پناہ وسائل سے نوازا ہے، لیکن بدقسمتی سے گزشتہ کئی دہائیوں سے یہاں کے حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔

بلوچستان کی تاریخ محض روایات، لوک کہانیوں، اور سادگی سے بھرپور نہیں، بلکہ ایک جدوجہد کی طویل داستان بھی ہے۔ قیصر بنگالی جیسے ماہرین معاشیات بارہا کہہ چکے ہیں کہ اگر بلوچستان کے معدنی وسائل سے صحیح طریقے سے استفادہ کیا جائے تو یہاں کے ہر شہری کو دو نوکریاں دی جا سکتی ہیں۔ مگر افسوس، آج بھی ملک کا سب سے مالدار صوبہ سب سے زیادہ غربت کا شکار ہے۔

تگران، جو کہ ایران کے قریب ایک پسماندہ اور کوہستانی علاقہ ہے، اس کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یہاں کے لوگ کھیتی باڑی، مال مویشی اور بیرون ملک ملازمتوں کے ذریعے سادہ زندگی گزارا کرتے تھے۔ گاؤں میں ہر شخص ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتا، شامیں دیسی گھی، مکھن، پنیر اور تازہ سبزیوں سے بھرپور ہوتیں، اور راتیں قصے کہانیوں میں ڈھل جاتیں۔

مگر امن کی یہ فضا اس وقت تار تار ہو گئی جب حکومت نے “گٹہ” کے نام پر ٹیکس نافذ کیا — ہر دس بکریوں پر ایک بکری بطور محصول لی جانے لگی۔ لوگوں نے اس جبر کو قبول نہ کیا تو انھیں “ملک دشمن” اور “غدار” قرار دیا گیا، ان کے گھروں پر چھاپے مارے گئے، اور ان کی روایتی اسلحہ برداری، جو کبھی ان کی شناخت تھی، غیر قانونی قرار دے دی گئی۔

2006 میں نواب اکبر خان بگٹی پر حملے کے بعد کشیدگی اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ چادر و چاردیواری کی پامالی، جبری گمشدگیاں، اور نقل مکانی جیسے عوامل نے بلوچستان کے عوام کو شدید کرب میں مبتلا کر دیا۔ آج صورت حال یہ ہے کہ ہزاروں خاندان اپنے پیاروں کی تلاش میں پریس کلبوں کے سامنے دہائی دے رہے ہیں۔ خواتین لانگ مارچ کرتی ہیں، اور ان پر پانی کی بوچھاڑ کی جاتی ہے۔

حال ہی میں کوئٹہ میں ماہ رنگ بلوچ کی گرفتاری اور کراچی میں بی واہی سے تعلق رکھنے والے رہنما سمی دین کی حراست نے صورت حال کو مزید نازک بنا دیا ہے۔ بلوچستان کی سڑکیں سنسان پڑی ہیں، سیاحت ناپید ہے، اور بین الاقوامی ادارے یہاں آنے سے گریزاں ہیں۔ زامران اور بلیدہ جیسے علاقوں میں مسلسل احتجاج جاری ہے، جبکہ کئی بلوچ نوجوان پہاڑوں کا رخ کر چکے ہیں۔

یہ ایک ایسی جدوجہد کی تصویر ہے جس میں ایک ماں ہر دن اپنے بچے کے لوٹنے کی دعا کرتی ہے، اور ایک نوجوان اپنے کل کے خوابوں کو موجودہ کرب میں دفن کرتا ہے۔

بلوچستان خاموش نہیں — یہ سرزمین آج بھی چیخ رہی ہے، انصاف مانگ رہی ہے، اور اپنے حصے کا وطن، وسائل اور وقار چاہتی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔