لواحقین اور تنظیموں کی جانب سے مختلف شہروں میں احتجاجی دھرنے آج بھی جاری رہے۔
تفصیلات کے مطابق بلوچستان اور کراچی سے جبری گمشدگیوں اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی گرفتار قیادت کی عدم بازیابی کے خلاف کوئٹہ، کراچی اور اسلام آباد میں احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کا سلسلہ جاری ہے۔
کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز طویل احتجاجی کیمپ آج 5923ویں روز میں داخل ہو گیا، کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لگے اس احتجاجی کیمپ میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی اور اظہارِ یکجہتی کیا۔
شرکاء نے جبری گمشدگیوں اور لاپتہ افراد کے ماورائے قانون قتل پر شدید تشویش کا اظہار کیا اور لاپتہ افراد کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا۔
ادھر اسلام آباد میں لاپتہ افراد کی بازیابی اور بی وائی سی قیادت کی رہائی کے لیے جاری دھرنے کو 43 دن مکمل ہو چکے ہیں، مظاہرین کا کہنا ہے کہ یہ احتجاج صرف لاپتہ رہنماؤں اور کارکنان کی بازیابی کا مطالبہ نہیں بلکہ ظلم و جبر کے پورے نظام کے خلاف ایک پرامن بغاوت ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ خواتین، بچے اور بزرگ سخت سردی، بھوک اور تھکن کے باوجود دھرنے کے مقام پر موجود ہیں ہمیں یقین ہے کہ سچائی کی طاقت ہر بندوق اور ہر قسم کے جبر سے بڑی ہے اور اسی یقین کے ساتھ ہم اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
مزید برآں، کراچی سے تعلق رکھنے والے بلوچ طالب علم زاہد علی کی جبری گمشدگی کے خلاف ان کے لواحقین کا احتجاجی کیمپ بھی کراچی پریس کلب کے سامنے آج مسلسل 22ویں روز جاری رہا۔
کراچی زاہد علی کے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ زاہد علی جو جامعہ کراچی میں شعبہ بین الاقوامی تعلقات کا 25 سالہ بلوچ طالب علم ہے 17 جولائی 2025 کو پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری طور پر لاپتہ ہوا تھا اس کے ساتھ وہ رکشہ بھی تحویل میں لیا گیا جو وہ جز وقتی طور پر اپنے گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے چلاتا تھا۔
اہلخانہ کا کہنا ہے کہ مسلسل احتجاج اور دھرنے کے باوجود حکام کی جانب سے نہ کوئی وضاحت دی گئی نہ قانونی کارروائی کی گئی اور نہ ہی انصاف فراہم کیا گیا۔
انکے مطابق زاہد کا معاملہ ان بے شمار جبری گمشدگیوں میں سے ایک ہے جنہوں نے بلوچ خاندانوں کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے، لواحقین نے سیاسی و انسانی حقوق کے تنظیموں سے اپیل کی ہے کہ وہ زاہد علی کی بازیابی میں کردار ادا کریں۔