بلوچستان: ایک انفارمیشن بلیک ہول
ٹی بی پی اداریہ
بلوچستان دنیا کے لیے ایک انفارمیشن بلیک ہول بن چکا ہے، اور اس کیفیت کو برقرار رکھنے کے لیے پاکستان کے مقتدر حلقے مسلسل مختلف حربے استعمال کر رہے ہیں۔ ملک کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بلوچستان کے معروضی حقائق پر بات کرنا ایک غیر اعلانیہ جرم بن چکا ہے۔ جو صحافی بلوچ مسئلے پر قلم اٹھاتے ہیں، وہ ریاستی جبر کا نشانہ بنتے ہیں۔ جو سیاسی کارکن قومی مسائل کو اجاگر کرتے ہیں، وہ پابندِ سلاسل کر دیے جاتے ہیں، اور دنیا کی بلوچستان تک رسائی روکنے کے لیے موبائل انٹرنیٹ کی بندش ایک معمول بن چکی ہے۔
بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں پہلے ہی انٹرنیٹ سروس معطل تھی، اور صرف چند بڑے شہروں میں موبائل انٹرنیٹ دستیاب تھا۔ تاہم، 6 اگست کی شام سے سیکیورٹی کی مخدوش صورتحال کو جواز بنا کر پورے بلوچستان میں موبائل انٹرنیٹ پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی۔
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) کی 9 تا 12 جولائی 2025 کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کے مطابق، بلوچستان میں ایک نہایت تشویشناک رجحان سامنے آیا ہے: جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے، جمہوری آزادیاں محدود کی جا رہی ہیں، صوبائی خودمختاری مزید کمزور ہو چکی ہے، صحافت پر سخت قدغنیں عائد ہیں، اور قانون سے بالاتر رہنے کا رجحان بے قابو ہو چکا ہے۔ یہ تمام عوامل بلوچستان میں عوامی بیگانگی اور سیاسی عدم استحکام کو مزید گہرا کر رہے ہیں۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں انٹرنیٹ کی بندش کا سب سے زیادہ نقصان طلباء، تاجر، ای کامرس، موبائل بینکنگ اور فری لانسنگ سے وابستہ افراد کو ہوتا ہے۔ البتہ مزاحمتی تحریکوں پر اس کے فوری اثرات مرتب نہیں ہوتے کیونکہ انٹرنیٹ کی بندش محض وقتی طور پر معلومات کے بہاؤ کو روک سکتی ہے۔ لیکن انفارمیشن تک رسائی کو محدود کر کے دنیا کو مستقل طور پر بلوچستان کے زمینی حقائق سے بے خبر رکھنا ممکن نہیں۔