بابا جان کا فلسفہ، آخری گولی تک مزاحمت
تحریر: لکمیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
زندگی صرف سانس لینے کا نام نہیں، بلکہ ایک مقصد، ایک شعور، اور ایک جدوجہد کا تسلسل ہے۔ کچھ لوگ روزمرہ کی چھوٹی چھوٹی خواہشات میں الجھ کر زندگی گزار دیتے ہیں، اور کچھ وہ ہوتے ہیں جو اپنے خواب، اپنا سکون، اور حتیٰ کہ اپنی جان تک قربان کر کے ایک ایسی زندگی جیتے ہیں جو دوسروں کے لیے مثال بن جاتی ہے۔ دوستی، محبت، احساس، اور قومی غیرت یہی وہ جذبے ہیں جو انسان کو عام سے خاص بنا دیتے ہیں۔ بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں ایسی ہی خاص زندگیاں بس رہی ہیں، جو اپنے عزم اور قربانیوں کے ذریعے قومی آزادی کی شمع کو روشن رکھے ہوئے ہیں۔ ان پہاڑوں میں چھپی قربانیوں کی داستانیں صرف جذبہ ہی نہیں، بلکہ ایک زندہ نظریہ ہیں، اور ان ہی داستانوں میں ایک نام ہے۔ شہید امیر عرف بابا جان۔
شہداء صرف جسمانی طور پر ہم سے جدا ہوتے ہیں، مگر ان کی سوچ، ان کی باتیں، ان کی مسکراہٹ، ان کا عزم اور ان کا فلسفہ ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ بابا جان کی زندگی بھی ایسی ہی ایک متحرک کہانی ہے جو ہمیں جینے کا سلیقہ اور لڑنے کا حوصلہ سکھاتی ہے۔ وہ صرف ایک سرمچار نہیں بلکہ فکری رہنما تھا۔ اس کی باتیں عام نہیں تھیں وہ مذاق میں بھی حوصلہ دیتا، اور مسکراہٹ میں بھی مزاحمت کی جھلک ہوتی۔
1 اگست 2025 کی رات، دشمن کے خلاف ایک منصوبے کے دوران، اُس نے دوستوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اے میرے جانباز ساتھیوں! تیار ہو جاؤ، دشمن ہمارے انتظار میں ہے۔ لیکن ہمیں خوف زدہ نہیں ہونا، بلکہ اپنی سوچ، اپنی طاقت اور اپنے جذبے پر یقین رکھنا ہے۔ ہمیں اپنی آخری گولی یا آخری سانس تک لڑنا ہے۔ واپس صرف تب آنا ہے جب دشمن کو یہ سبق سکھا دیں کہ زمین ہماری ہے۔
یہ الفاظ صرف ایک لمحاتی جوش نہیں، بلکہ اس کے اندر چھپی سوچ اور نظریے کی عکاسی تھے۔ اُس کی مسکراہٹ، اندازِ گفتگو اور وطن سے محبت آج بھی یاد آتی ہے اور دل کو حوصلہ دیتی ہے۔ دل چاہتا ہے کہ کاش آج وہ ہمارے درمیان ہوتا، لیکن اس کی قربانی اور سوچ آج بھی زندہ ہے، ہمارے نظریے کا حصہ ہے، اور رہے گی۔
شہید امیر عرف بابا کی بہادری کے قصے بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں گونجتے رہے ہیں۔ وہ صرف اپنے ساتھیوں کے لیے ہیرو نہیں تھا بلکہ دشمن کے لیے بھی ایک ایسا خوفناک نام تھا جسے سن کر لرزہ طاری ہو جاتا تھا۔ دشمن نے اپنے جھوٹے بیانیے میں دعویٰ کیا کہ اس معرکہ میں انہوں نے گیارہ سرمچاروں کو شہید کیا، مگر یہ دعویٰ ایک صریح جھوٹ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معرکے میں صرف ایک سرمچار، شہید بابا جان، نے جان کا نذرانہ پیش کیا۔ تاہم یہ بات بھی اپنی جگہ اٹل ہے کہ شہید بابا اپنی شخصیت، حوصلے اور بہادری میں ایک مکمل ٹیم کے برابر تھا۔
امیر نہ صرف ایک سپاہی تھا، بلکہ ایک بے لوث، نڈر، اور بے مثال دوست بھی تھا۔ زندگی کی عام گلیوں سے لے کر پہاڑوں کے میدانِ جنگ تک، وہ ہر موڑ پر احساس اور محبت کی مثال بنا رہا۔ جب بھی کوئی تھک جاتا، وہ اپنی خوش مزاجی، لطیفوں، اور حوصلہ افزا باتوں سے ماحول کو خوشگوار بنا دیتا۔ وہ صرف لڑنے والا نہیں، بلکہ جینے کا حوصلہ دینے والا انسان تھا۔ جنگ میں شیر کی طرح دشمن کا سامنا کرتا، اور دوستوں میں سایہ دار درخت بن کر اُن کی ڈھال بنتا۔
اس کی زندگی نے ہمیں سکھایا کہ اصل دوستی قربانی سے ثابت ہوتی ہے۔ اُس کی مسکراہٹ آج بھی یادوں میں بسی ہے، اور اس کی خوش اخلاقی اور خلوص کی تصویر ہمارے دلوں میں نقش ہے۔ اُس کی موجودگی اب جسمانی نہیں، مگر اُس کا کردار، اُس کا حوصلہ اور اُس کی سوچ ہمارے ساتھ ہے ہمیشہ کے لیے۔
شہداء کے لہو سے لکھی گئی داستانیں تاریخ کا باب نہیں بلکہ زندہ سبق ہیں۔ شہید امیر عرف بابا ان میناروں میں سے ایک ہے جس پر آزادی، غیرت، اور استقامت کا پرچم لہراتا ہے۔ اُس کی قربانی نے ہمیں سکھایا کہ دشمن سے لڑائی صرف ہتھیاروں سے نہیں، بلکہ نظریے، حوصلے اور عزم سے جیتی جاتی ہے۔ وہ چراغ جس نے ظلمت میں روشنی دی، وہ پیغام جو گونجتا رہے گا، اور وہ فلسفہ جو ہمیں کبھی جھکنے نہیں دے گا۔
ہم بابا جان اور دیگر شہداء کے مشن کو ادھورا نہیں چھوڑیں گے۔ ان کا خون ہماری جدوجہد کی بنیاد ہے، اور ان کی سوچ ہماری رہنمائی کا چراغ۔
وہ چلا گیا، لیکن اپنے کردار سے امر ہو گیا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔