اے میرے خیالوں کی روشنی، اے میری زمین میں مہکتی چاند
تحریر: ایس آر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
آج میں تم سے وہ سب کچھ کہنا چاہتا ہوں جو میرے دل کے نہاں خانوں میں مدتوں سے دفن ہے۔ شاید یہ میرا آخری پیغام ہو، شاید یہ وہ صدا ہو جو میرے دل سے نکل کر تمہارے دل کے دریچوں کو چھو جائے، یا شاید صرف ایک خاموش وداع ہو لیکن جو بھی ہو، یہ میرے دل کی سچائی ہے۔
میں جانتا ہوں کہ میں نے تم سے کئی وعدے کیے۔ وہ وعدے جو وقت کی دوڑ میں کہیں پیچھے رہ گئے۔ میں انہیں پورا نہ کر سکا، نہ شاید کبھی کر سکوں مگر ایک بات جو ہمیشہ سچ تھی، ہے، اور رہے گی وہ یہ کہ میں نے تم میں اپنا خدا دیکھا ہے۔ تمہارے وجود میں وہ پاکیزگی، وہ روشنی ہے جو صرف عبادت میں ملتی ہے۔ تم میری زندگی کی وہ دعا ہو جو میرے لبوں پر ہمیشہ رہی، تمہیں نہیں معلوم ہوگا کہ مجھے تم سے کب محبت ہوئی، کیسے محبت ہوئی لیکن یہ محبت، یہ دل کا رشتہ کسی عام جذبے کا نام نہیں۔ میرے والدین اور میری مٹی کے بعد اگر کبھی کسی ہستی کو میں نے دل سے چاہا تو وہ تم ہو۔ تم میرے دل کا سکون ہو، تم میرے جذبوں کی روشنی ہو۔
مگر سنو میری زمین کی محبت تم سے بڑھ کر رہی ہے۔ یہ وہ عشق ہے جس کی کوئی حد نہیں، کوئی پیمانہ نہیں۔ یہ وہ تعلق ہے جو ماں کی آغوش سے بھی زیادہ گہرا، اور خدا کی قسم، ستر ماؤں کی ممتا سے بھی زیادہ عظیم ہے۔ میری زمین میرے خون میں ہے، میری سانسوں میں ہے، میرے خوابوں میں ہے۔ اور اسی لیے میں نے اس کے لیے خود کو قربان کرنے کا عہد کیا ہے۔ میں نے اپنے دل کو تمہاری محبت سے جدا کر کے، اس پاک سرزمین کے قدموں میں رکھ دیا ہے۔
یہ زمین ایک ایسا عشق ہے، جس کے لیے اگر ہزاروں سر بھی قربان کیے جائیں، تب بھی وہ کم پڑیں گے۔ اس مٹی کا حق ادا کرنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں، لیکن میں کوشش کر رہا ہوں۔ اور یہی میری زندگی کا مقصد بن چکا ہے۔
میں نے اپنی زندگی کو تمہارے لیے، اپنی قوم کے لیے، اور اس سرزمین کے لیے وقف کر دیا ہے کیونکہ ایک گوریلا سپاہی، ایک زمین زادہ، صرف دشمن سے جنگ نہیں لڑتا وہ غلامی سے آزادی کی راہوں میں چراغ جلاتا ہے۔ وہ نسلوں کی قسمت بدلنے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرتا ہے۔
میں تمہیں وہ زندگی دینا چاہتا ہوں جس کے تم واقعی قابل ہو ایسی زندگی جو تم نے کبھی دیکھی نہیں، جو میری بھی نہیں رہی مگر تمہاری ہونی چاہیے۔
تُم جانتی ہو نا، غلام قومیں کبھی خوش نہیں رہتیں۔ غلامی ایک زنجیر نہیں بلکہ ایک اندھیری قبر ہے جس میں سانس لینا بھی عذاب بن جاتا ہے۔ غلامی میں نہ کوئی خوشی ہوتی ہے، نہ کوئی خواب سچ ہوتے ہیں۔ اس لیے، میری زندگی کا ایک ہی مقصد ہے آزادی۔
آزادی، جو غلاموں کو نئی زندگی دیتی ہے۔ آزادی، جو تمہیں تمہاری کھوئی ہوئی مسکراہٹ واپس دے سکتی ہے جو میرے دور جانے نے چین لی تھی۔ آزادی، جو ایک قوم کے ماتھے پر سربلندی کا تاج بن کر جگمگاتی ہے۔
میں تم سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ “تم خوش رہو” کیونکہ میں جانتا ہوں کہ تم صرف تب خوش رہ سکتی ہو جب تم آزاد ہو، جب تمہیں وہ دنیا ملے جس کا تم نے خواب دیکھا ہو۔ اور اس خواب کو سچ کرنے کے لیے، میں نکل چکا ہوں۔ تم سے دور، مگر تمہارے لیے۔
تم غلامی کے لیے پیدا نہیں ہوئیں، تم محبت کی، روشنی کی، آزادی کی علامت ہو۔ اور میں تمہارے لیے وہ دنیا تلاش کرنے نکلا ہوں جہاں تمہیں قید، خوف، اور غم کا سامنا نہ ہو۔ جہاں تم آزاد سانس لے سکو، کھل کر جی سکو، اور فخر سے کہہ سکو: “میں ایک آزاد قوم کی بیٹی ہوں۔”
میں جانتا ہوں کہ یہ راہ آسان نہیں۔ ممکن ہے، تمہیں برسوں میرا کوئی پیغام نہ ملے، ممکن ہے تم مجھ سے شکوے کرو، روتی رہو، یا مجھے کبھی معاف نہ کرو۔ لیکن اگر کبھی میری باتیں تمہارے دل تک پہنچیں تو بس یہ یاد رکھنا:
میں نے تم سے محبت کی ہے،
بے انتہا، بے مثال۔
تمہارا اپنا، تمہاری آزادی کے خواب کا سپاہی،
تمہاری زمین کا بیٹا،
تمہاری بلوچ سرمچار
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔