ایک غیرمرئی مکالمہ
تحریر: برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
میرے عزیز برزکوہی، میں تمہیں اس نیم تاریک کمرے سے لکھ رہا ہوں، جس کی دیواروں پر وقت کے پرانے کیلنڈر لٹکے ہیں اور ساعتوں کی سوئیاں رکی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ یہاں ہوا میں دواؤں کی ہلکی سی نمی ہے، جیسے کسی نے نمک کو بارش میں چھوڑ دیا ہو اور اب وہ دیواروں کے مساموں میں جذب ہو رہی ہو۔ میز پر رکھی روشنائی کی دوات میں رات کی کالی تہہ ہے، جس میں جھانکو تو اپنے چہرے کے پیچھے ماضی کے بے شمار چہرے تیرتے دکھائی دیتے ہیں۔ میں انہیں نام دینے کی کوشش نہیں کرتا، صرف شمار کرتا ہوں کہ گنتی کے اندر بھی گنتی ہوتی ہے اور ہر عدد کے پیچھے ایک سرگوشی۔ تم نے ایک بار لکھا تھا کہ لغت کے اندر ایک خفیہ دہلیز ہوتی ہے، جہاں لفظ اپنی پہلی معنی چھوڑ کر نئے وجود میں داخل ہوتا ہے۔ میں اسی دہلیز پر بیٹھا ہوں اور اپنے نام کے حرف ق کو دیکھ رہا ہوں جو خود سے الگ ہو کر ایک چھوٹا سا پرندہ بن جاتا ہے، اور پھر کاغذ کے کنارے سے اڑ کر کھڑکی کے پردے میں گم ہو جاتا ہے۔
مجھے بیماری نے جسم کی نہر میں سنگریزوں کی طرح کاٹا، مگر یہ بھی سچ ہے کہ جسم اپنی تلخیوں کو ریشہ ریشہ یاد رکھتا ہے اور اسی یاد کی تہہ میں انسان نظم سیکھتا ہے۔ میں نے تھکن کو اس طرح ترتیب دینا سیکھا جیسے کوئی کاتب شکستہ قلم سے بھی سیدھی سطریں کھینچ لے۔ راتوں کی بیداری میرے لیئے کسی اذیت کا نام نہیں رہی، یہ ایک مخزن بن گئی جہاں ذہن اپنے اوزار تیز کرتا ہے، جہاں فاصلوں کو نقشہ کہتا ہے اور خاموشی کو قاعدہ۔ تم اسے سائنسی شعور کہہ لو یا صبر کی ریاضی۔ میں نے سمجھا کہ جو قوم اپنی خاموشیوں کو تولنا سیکھ لے، وہ اپنی چیخوں کی سمت بھی طے کر سکتی ہے۔
ہمارے شہر کے بازار میں شام کے بعد بتیوں کی روشنی کاغذی گھنٹوں کی طرح لٹکنے لگتی ہے۔ وہاں پھل فروش چھلکوں سے کہانیاں بناتے ہیں، نانبائی روٹی کی سطح پر ستاروں کی گرد پھونکتا ہے، اور بچے گلی کے موڑ پر بیٹھ کر زمین پر بحیرہ نما نقشے کھینچتے ہیں۔ میں ان بچوں کو دیکھتا ہوں تو محسوس کرتا ہوں کہ مستقبل اپنے سب سے سادہ نقش میں بھی ایک مشکل تحریر ہے۔ وہ چھوٹی انگلی سے خاک پر جو لکیریں کھینچتے ہیں، وہ لکیریں آگے چل کر قراردادیں بنتی ہیں، دفتری فائلوں کے سرخ ربن بنتی ہیں، کبھی کسی دیوار پر غائب ہونے والی سائے کی لکیر۔ میں چاہتا ہوں تم ان لکیروں کی زبان محفوظ کرلو، کیونکہ ہمارے وقائع نگار اکثر شکست کے بعد آتے ہیں اور تاریخ کے نوحے میں ان نازک حروف کو گرا دیتے ہیں۔
میرے گھر کی دہلیز پر ایک بارش زدہ دوپہر میں وہ بچہ کھڑا تھا، جس کی آنکھوں میں نمک پگھلا ہوا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک ٹوٹی ہوئی گھڑی تھی اور وہ مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ کیا وقت کو جوڑنا ممکن ہے؟ میں نے اس سے کہا کہ وقت جوڑنا گھڑی جوڑنے سے مشکل ہے، کیونکہ وقت میں یاد کی خون آشامی شامل ہوتی ہے۔ وہ ہنسا، پھر خاموش ہوگیا۔ اس کی خاموشی نے مجھے بتایا کہ بعض سوال خود سے جواب پیدا کرتے ہیں۔ میں نے اس کی ٹوٹی ہوئی گھڑی اپنے پاس رکھ لی اور اسے ایک سادہ سا نقشہ دیا جس میں گھر، سکول اور لائبریری کے درمیان ایک محفوظ راستہ تھا۔ اس دن میں نے سمجھا کہ حفاظت محض ہتھیاروں کی بھاری آواز سے نہیں بنتی، یہ کاغذ کے چھوٹے نقشوں سے بھی بنتی ہے، جنہیں بچے اپنی جیب میں رکھتے ہیں۔
برزکوہی، تمہیں تو پتہ ہے کہ میرے شہر کے مغرب میں ایک پرانی اینٹوں کی بھٹی ہے۔ شام ڈھلے وہ بھٹی سانس لینے لگتی ہے اور دھواں آسمان کی کتاب پر ایک سطر لکھ دیتا ہے۔ میں اکثر وہاں بیٹھ کر اپنے نوٹس دیکھتا ہوں۔ ان نوٹس میں ایسے الفاظ ہیں جو کبھی کسی لغت میں درج نہ ہو سکے۔ جیسے خاموشی کی عمارت، یا تھکن کی جغرافیہ، یا صبر کی الہیات۔ میں نے ان اصطلاحات کو کسی مدرسے کے لیئے نہیں، بلکہ اپنے اندر کے نظم کے لیئے تراشا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ متن اپنی زندگی خود چنتا ہے، اور ہم محض کاتب ہوتے ہیں، جن کے ہاتھوں سے وہ نیا جسم اختیار کرتا ہے۔
تم نے کہا تھا کہ برونو شولٹز کے شہر میں وقت موم کی طرح نرم ہو جاتا ہے۔ ہمارے شہر میں وہ موم کبھی کبھی پتھر بن جاتا ہے۔ میں نے ایک عورت کو دیکھا جس کے بازو میں بچہ سو رہا تھا اور اس کے چہرے پر دھوپ کے زرد دھبے رقص کر رہے تھے۔ اس نے بچہ ہلکا سا سمیٹا اور مجھے بتایا کہ خوف کی بھی عادت پڑ جاتی ہے۔ میں نے اس کی بات دل میں رکھ لی اور اس کے قدموں کے نشان اپنے نوٹس کے حاشیئے پر بنا دیئے۔ کچھ نشان مدہم تھے، کچھ گہرے۔ مجھے لگا خوف کی عادت اور امید کی عادت ایک ہی کاغذ کے دو اطراف ہیں۔ اگر ایک طرف زیادہ دباؤ پڑے تو دوسری طرف لکیر واضح ہو جاتی ہے۔
رات کے اس پہر میں جب سب سوتے ہیں تو میری کھڑکی کے باہر ایک چپ چاپ سی چڑیا بیٹھتی ہے۔ اس کی چونچ میں دھاگے کا باریک ریشہ ہوتا ہے۔ وہ اسے کہیں سے کھینچ لاتی ہے اور میرے پھنکے کی ڈوری کے ساتھ گانٹھ دیتی ہے۔ میں اسے روکتا نہیں، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ وہ ریشہ اندر کے الجھاؤ کو ہلکا کرتا ہے۔ تم اسے نفسیات کہہ سکتے ہو یا محض بہانہ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ آدمی اپنے اندرونی دھاگوں سے بنا ہوتا ہے، اور اگر وہ دھاگے دانائی سے گانٹھے جائیں تو انسان وقت کے تیز جھونکوں میں بھی ٹوٹتا نہیں، بس ہلتا ہے۔
میں نے لفظ نظم کو اپنے لیئے راز کی طرح رکھا ہے۔ نظم کا مطلب میرے لیئے فقط شعر نہیں، ایک ایسی سانس ہے جو بدن کو بیرونی ہنگامے سے ہم آہنگ کرتی ہے۔ جب اندر کا شور قابو میں آجاتا ہے تو باہر کی آوازیں اپنے درست مقام پر بیٹھتی ہیں۔ اسی لیئے میں کام کے بیچ میں بھی مطالعہ کو چھوڑتا نہیں۔ کتاب میرے لیئے بندوق نہیں، مگر اس کی جلد کے اندر ایک ایسی گرمائش ہے جو ہاتھ کو سنبھالتی ہے۔
برزکوہی، یہ پہلا ورق میں نے محض اس لیئے لکھا کہ تم جان لو، کہانی وہاں سے شروع نہیں ہوتی جہاں طبل بجتا ہے۔ کہانی اس کمرے کی خاموشی سے شروع ہوتی ہے جہاں پاؤں کے نیچے کا فرش اپنے آپ کو لکڑی نہیں کہتا، بلکہ دریا کہتا ہے۔ اور تمہیں دریا کی سطح پر تیرتے ہوئے اپنے انعکاس کو پہچاننا ہوتا ہے۔ میں اپنے انعکاس کو ق سے قاضی کہتا ہوں۔ کبھی وہ پرندہ ہوتا ہے، کبھی دہلیز، کبھی کھڑکی کی باریک لکیر۔ تم اسے جو چاہو نام دے دو، مگر اسے محفوظ کرلو۔ کیونکہ میں اگلے ورق میں تمہیں بتاؤں گا کہ اندرونی نظم کیسے بیرونی ساخت میں ڈھلتی ہے۔
تم نے اکثر پوچھا کہ ادارہ کیا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ادارہ سب سے پہلے ایک اخلاقی ترتیب ہے، پھر فکری، پھر عملی۔ اگر اخلاقی ترتیب نہ ہو تو فکری ترتیب پرانی اوزار ہوجاتی ہے اور عملی ترتیب حادثہ۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ کمان، مورچہ اور راہ داری سیکھنے سے پہلے قاعدہ سیکھو، خاموشی کا قاعدہ، فیصلہ سازی کا قاعدہ، سچ کو محفوظ رکھنے کا قاعدہ۔ کیونکہ کچھ سچ اعلان کے لائق نہیں ہوتے، وہ تربیت کے لائق ہوتے ہیں۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ ہم اکثر جذبے کی رفتار سے دوڑتے ہیں اور قاعدے کے پاؤں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ وہاں ٹوٹ پھوٹ شروع ہوتی ہے۔ اس لیئے میں نے ہر جذبے کے ساتھ ایک میز رکھا، جس پر قلم، کاغذ اور سوال رکھا گیا۔ میز ہی تو وہ جگہ ہے جہاں ہنگامہ نظم بنتا ہے۔
مجھے غیر عسکری محاذ میں ہمیشہ سے ایک دلچسپی رہی۔ ہائی ٹیک سننے میں نیا لگتا ہے، مگر اس کی روح بہت پرانی ہے۔ یہ دراصل وہی بصیرت ہے جس کے ذریعے ہم آوازوں کے پیچھے کے نقش دیکھتے ہیں، قدموں کے ساتھ جڑتی ہوئی لکیروں کو پہچانتے ہیں، اور خبر کی رگوں میں چلنے والے نمک کی مقدار ناپتے ہیں۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو سمجھایا کہ معاشروں میں معلومات اسی طرح بہتی ہیں، جیسے رات کو خاموش دریا بہتا ہے۔ سطح پر لہر نظر آتی ہے، مگر نیچے کی سمت وہ پتھروں سے اپنی زبان بناتا ہے۔ اگر ہم اس زبان کو نہ پڑھیں تو ہم پانی کے شور کے قیدی بن کر رہ جائیں گے۔
جب میں کہتا ہوں کہ مزاحمت کو ریاست سازی کے قرینوں میں سمجھو تو کچھ لوگ چونک جاتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ یہ زبان کتابی ہے۔ میں کہتا ہوں کتاب کی زبان اگر میدان میں نہ اترے تو کتاب دھول اوڑھ لیتی ہے۔ ریاست سازی کا مطلب میرے لیئے اقتدار نہیں، ذمہ داری ہے۔ ذمہ داری کہ ہر فیصلہ اپنے نتائج کے متناسب ہو، ہر حکم کے ساتھ اس کے اخلاقی جواز کا سایہ بھی ہو۔ میں نے اپنے اندر ایک چھوٹا سا دفتر بنا رکھا ہے، جہاں روز اپنا حکم نامہ، نفس کے سامنے رکھ دیتا ہوں اور پوچھتا ہوں کہ کیا یہ فرمان انصاف کے ترازو میں درست بیٹھتا ہے۔ اگر نہیں تو میں اسے پھاڑ دیتا ہوں۔ تم اسے روح کی بیوروکریسی کہہ سکتے ہو۔ مگر یہی بیوروکریسی آدمی کو وقت کے دباؤ میں بھی سیدھا رکھتی ہے۔
بیماری نے مجھے ایک ایسی دُھن سکھائی، جو صحت مند بدن اکثر سن نہیں پاتے۔ اس دھن میں سانس کی رفت و فشار ہے، دھڑکن کی دبی ہوئی ضربیں ہیں، اور اس کے بیچ ایک ایسی خاموش حاشیہ نویسی ہے، جس پر اندر کی عدالت اپنے فیصلے لکھتی ہے۔ میں نے ڈرنا چھوڑ دیا جب مجھے معلوم ہوا کہ جسم اور خوف کے درمیان ایک راز دار معاہدہ ہے۔ جسم پوری وفاداری سے خبر دیتا رہتا ہے کہ کہاں کمزوری ہے، کہاں دھچکا لگے گا، کہاں سنبھلنا ہے۔ اگر ہم اس خبر کی الف سے یا تک سیکھ لیں تو خوف محض ایک پرانا اعلان بن جاتا ہے جو دیوار پر چسپاں ہے اور جس پر نئی تاریخیں تحریر ہو رہی ہیں۔ اسی لیئے میں نے اپنے ساتھ والوں کو کہا کہ اپنے بدن کی ڈائری لکھو۔ اس ڈائری میں تم خود اپنے محافظ بننا سیکھو گے۔
میں نے ایک بار اپنے کمرے میں چار خانوں والا نقشہ بنایا۔ پہلے خانے میں علم لکھا، دوسرے میں ضبط، تیسرے میں ربط، چوتھے میں خدمت۔ علم کے بغیر ضبط اندھا ہوتا ہے، ضبط کے بغیر ربط بکھر جاتا ہے، ربط کے بغیر خدمت دکھاوا ہو جاتی ہے، اور خدمت کے بغیر علم بے رحم ہوتا ہے۔ یہ چار خانے میرے لیئے وہ چوک ہیں جہاں ہر راستہ اپنے آپ کو سوال کرتا ہے۔ جب کبھی اندر کی گرہ سلجھتی نہیں تھی تو میں اسی چوک پر بیٹھ جاتا تھا۔ کبھی کبھی ایک ننھا سا اشارہ راستہ کھول دیتا تھا، جیسے کھڑکی کی درز سے آتی ہوا کاغذ کے کونے کو ہلا دے اور تم سمجھو کہ یہی سمت درست ہے۔
نوجوان اکثر میرے پاس آیا کرتے تھے۔ ان کی آنکھوں میں ایک ایسی آگ ہوتی تھی جو شعلہ بننے سے پہلے کی حرارت ہے۔ میں انہیں دیکھ کر خوش ہوتا، مگر انہیں بتاتا کہ حرارت کو ظرف چاہیئے۔ ظرف کے بغیر آگ جلد بجھ جاتی ہے یا غلط چیزوں کو جلا دیتی ہے۔ ظرف کیا ہے، وہی چار خانوں کا چوک، اور اس کے گرد روزمرہ کے چھوٹے کام۔ میں نے انہیں لائبریری کی خاموشی کا ادب سکھایا، نوٹس کے حاشیئے کی معنویت بتائی، موسم کی نقل و حرکت سے فیصلہ سازی کی لچک نکالنے کی مشق کرائی۔ وہ ہنستے تھے کہ یہ سب باریکیاں کیا جنگ کی زمین پر کام آئیں گی۔ پھر وقت نے انہیں دکھایا کہ سب سے باریک ریشہ ہی سب سے بھاری بوجھ اٹھاتا ہے۔
برزکوہی، میں نے تمہاری تحریروں میں ایک ہلکی سی صدا ہمیشہ سنی ہے۔ وہ صدا کہتی ہے کہ تحریر دراصل ضبط شدہ چیخ ہے جو حروف کے اندر سانس لیتی ہے۔ میں چاہتا ہوں تم اس چیخ کو نظم دو۔ نظم دو تو وہ معاشرے کے اندر ایک اخلاقی یادداشت بن جاتی ہے۔ اگر نظم نہ ہو تو وہ چیخ راکھ بن کر اڑتی رہتی ہے اور آنکھوں میں چبھتی ہے۔ میں نے اپنی زندگی بھر یہی کیا کہ چیخ کو نظم دیا۔ کبھی بچوں کے لیے محفوظ راستوں کے نقشے بنا کر، کبھی بزرگوں کے لیئے دواؤں کے اوقات لکھ کر، کبھی نوجوانوں کے لیئے سیکھنے کے چار خانے کھینچ کر۔ اگر یہ سب کچھ تمہیں بہت ہلکا معلوم ہوتا ہے تو سمجھ لو تم ابھی طاقت کی زبان میں ہو۔ طاقت کی زبان بھاری لگتی ہے، خدمت کی زبان ہلکی۔ لیکن یاد رکھو، یہی ہلکی زبان معاشرے کے سب سے بھاری بوجھ اٹھاتی ہے۔
اب میں اس خط کے آخری حصے میں ہوں۔ رات آہستہ آہستہ کمرے کے کناروں سے اتر رہی ہے اور الماریوں کے دھات پر نرمی کی ہلکی تہہ بیٹھ رہی ہے۔ میں چاہتا ہوں تمہارا ہاتھ تھام کر ایک چھت پر لے جاؤں جہاں سے شہر کی آوازیں ایک ساتھ سنائی دیتی ہیں۔ اس چھت پر ایک سفید کرسی ہے جس پر کبھی کسی استاد نے بیٹھ کر بچوں کو حروف سکھائے تھے۔ میں اس کرسی کو سامنے رکھ کر اپنے اندر کی عدالت کا اجلاس کرتا ہوں۔ آج کے اجلاس میں میری کرسی خالی رہے گی۔ میں چاہتا ہوں تم اس پر بیٹھو اور میرا نام نہ پڑھو۔ میری شناخت ان حروف میں نہیں، ان قواعد میں ہے جنہیں میں نے اپنے اندر محفوظ کیا۔ اگر لوگ کسی دن تم سے میرے کام کے بارے میں پوچھیں تو انہیں بتانا کہ میں نے چار خانوں کے چوک پر بیٹھ کر فیصلے کیئے تھے، اور ہر فیصلے کے پیچھے ایک انسانی چہرہ تھا، جس کی آنکھ میں نمک کی نمی تھی۔
تم سے ایک گزارش ہے، برزکوہی۔ جب کسی دن تم اپنی کسی تحریر میں سرد دنوں کی دھوپ لکھو تو اس دھوپ کے کنارے پر ایک چھوٹا سا سایہ بھی رکھ دینا۔ وہ سایہ اس بچے کا ہو جو ٹوٹی گھڑی لے کر پوچھتا ہے کہ کیا وقت جوڑا جاسکتا ہے۔ اسے لکھنا کیونکہ سماج کا وقت اسی بچے کی جیب میں رکھا نقشہ جوڑتا ہے۔ اور جب کسی دن تم شہر کی رات کا ذکر کرو تو یہ بھی لکھ دینا کہ رات بھی ایک استاد ہے۔ وہ ہمیں سکھاتی ہے کہ خاموشی میں راستوں کی زبان کیسے سنتے ہیں۔ رات کی بارات میں شور کم ہوتا ہے تو سماعت تیز ہو جاتی ہے۔ اور جب سماعت تیز ہو تو عدالت کے فیصلے درست ہوتے ہیں۔
میں نے جن چہروں کو کھویا، ان کے نام نہیں لکھ رہا۔ نام کبھی کبھی لفظوں کو شرمندہ کر دیتے ہیں، کیونکہ وہ اپنے ساتھ ایسا بوجھ لاتے ہیں جسے کاغذ اٹھا نہیں پاتا۔ میں نے ان چہروں کے بدل میں روشنی کے چھوٹے چھوٹے نقطے جمع کیئے ہیں۔ ان نقطوں سے میں نے اندر کے آسمان پر ایک غیر مرئی نقشہ بنایا ہے۔ جب کبھی دل ہچکچاتا ہے تو میں اس نقشے کو دیکھتا ہوں۔ ایک نقطہ میرے دائیں کندھے کے پاس چمکتا ہے، ایک بائیں ہاتھ کی پشت پر، ایک پیشانی کے کنارے پر۔ میں ان نقطوں کو اپنی سانس کے ساتھ جوڑ دیتا ہوں۔ پھر فیصلہ آسان ہو جاتا ہے۔ تم اسے مراقبہ کہہ سکتے ہو۔ مگر میں اسے بس اپنے لوگوں کی آواز کہتا ہوں جو مجھے ہلکی روشنی میں سنبھال لیتی ہے۔
لکھنے والوں کے لیئے ایک نصیحت چھوڑتا ہوں۔ اپنے لفظوں کی ابتدا میں ایک چھوٹا سا کنواں رکھو۔ اس کنویں میں ہر صبح پانی جھانک کر دیکھو۔ اگر سطح پر دھول ہے تو قلم نہ چلاؤ، پہلے دھول ہٹاؤ۔ اگر پانی شفاف ہے تو پھر جو لکھو گے وہ خود شفافیت کے ساتھ بہے گا۔ اور ہاں، لکھتے وقت اپنے کندھے پر ایک گونگا صحافی بٹھا لو۔
میرے گھر کی الماری میں ایک کاغذ رکھا ہے، جس پر میں نے آخری بار اپنے نام کے حرف ق کے گرد ایک دائرہ کھینچا تھا۔ اس دائرے کے کنارے پر میں نے ایک چھوٹی سی نوٹ لکھی۔ اس میں لکھا کہ نام پانی ہے۔ اگر تم اسے برتن سمجھ لو گے تو جلد سڑ جائے گا، اگر اسے بہنے دو گے تو وہ خود اپنے راستے ڈھونڈ لے گا۔ میں اپنے نام کو بہنے کے لیئے چھوڑ رہا ہوں۔ تم اسے روکنا نہ۔ بس اس کے بہاؤ کے کنارے اپنے جملے رکھ دینا، تاکہ جب کوئی پیاسہ آئے تو اسے معلوم ہو کہ یہاں زبان بھی پانی ہے، اور پانی زبان ہے۔
کھڑکی کے باہر وہی چڑیا پھر آ بیٹھی ہے، چونچ میں دھاگے کا باریک ریشہ لیئے ہوئے۔ دو دہائیوں کی ہماری رفاقت کی طرح یہ ریشہ بھی مضبوط ہے، شاید آج آخری گانٹھ ہم دونوں کے ہاتھ سے لگنی ہے۔ میں کمرے میں ہلکی سی روشنی چھوڑے جا رہا ہوں تاکہ جب تم آؤ تو یہ جگہ اجنبی نہ لگے، یہی وہ چھت، یہی وہ میز جہاں ہم نے ایک دوسرے کی خاموش غلطیوں کو تھاما، لغت کا گرد دھویا اور بچوں کی جیب کے لیئے چھوٹے محفوظ نقشے بنائے۔ اگر کبھی آواز دھندلا جائے تو دیوار پر کان رکھنا۔ تمہیں دور سے کسی بھٹی کی سانس سنائی دے گی، جس کے دھوئیں نے آسمان پر ایک نئی سطر لکھ دی ہے۔ وہ سطر تمہارا انتظار کر رہی ہے۔
تمہارا رفیقِ دو دہائیوں کا ہم فکر ساتھی، قاٍضی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔