امریکی ڈیپلومیسی، پاکستان کے ساتھ تعلقات، بی ایل اے پر پابندی اور مجید بریگیڈ پر ممکنہ اثرات کا جائزہ

53

امریکی ڈیپلومیسی، پاکستان کے ساتھ تعلقات، بی ایل اے پر پابندی اور مجید بریگیڈ پر ممکنہ اثرات کا جائزہ

تحریر: ہارون بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

پاکستانی آرمی چیف کے حالیہ دورے کے بعد امریکہ کی طرف سے ایک مرتبہ پھر بلوچ لبریشن آرمی پر پانبدی کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ اب بی ایل اے کے ایک اہم ذیلی ونگ مجید برگیڈ پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ امریکہ کی طرف سے یہ فیصلہ پاکستان کو خوش کرنے اور پاکستان کے ساتھ چند ڈیل کرنے، سمیت بھارت پر دباؤ بڑھانے کی ان کوششوں میں شامل ہے کہ وہ پاکستان کی طرح اس ایڈمنسٹریشن کے ساتھ اپنے تعلقات کو طاقت ور غلام کی طرح رکھیں۔ بنیادی طور پر امریکہ کو بھارت کا حالیہ رویہ کسی بھی طرح پسند نہیں آیا ہے جس میں بھارت نے امریکہ کی کٹھ پتلی ہونے سے انکار کر دیا ہے جس کی بنیادی وجہ بھارت کی آزادانہ خارجہ پالیسی، امریکہ کے ساتھ برابری کے تعلقات اور بطور ایک طاقت ور اور ساوتھ ایشیا میں ابھرتے معاشی اور فوجی طاقت کے طور پر سامنے آنا اور امریکہ کو نظر انداز کرنا، خاص طور پر حالیہ یوکرین اور روس تنازع کے بعد جس طرح بھارت نے امریکی دباؤ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے قومی مفادات کی حفاظت کرتے ہوئے روس کے یہاں مزید مقدار میں تیل خریدا اور اپنی معاشی پالیسیوں کو کسی تیسرے طاقت کے ہاتھوں یرغمال کرنے سے انکار کیا جس سے امریکہ کو بہت زیادہ ٹھیس پہنچا۔

ایک طاقت ور اور سپرپاور ریاست کیلئے یہ بہت ضروری ہوتا ہے کہ وہ بڑے سے بڑے ممالک اور خاص طور پر ان ممالک کی پالیسیوں پر اثرانداز ہوں جو معاشی حوالے سے ان کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، بھارت کی معاشی ترقی میں امریکی معاشی پالیسیوں کا ایک اہم کردار ہے وہ ٹیسلا جیسے امریکی کمپنیوں کا بھارت میں کاروبار ہو یا امریکی مختلف کمپنیوں کی بھارت سے وسیع پیمانے پر برآمد ہو یہ کسی نہ کسی طرح بھارتی معاشی ترقی کا ایک اہم جز رہے ہیں۔

امریکہ میں حالیہ ایڈمنسٹریشن نے دنیا بھر میں اپنے تلعقات کو لیکر ایک مخلتف اپروچ کے ساتھ ریاستوں کو ڈیل کرنا شروع کر دیا ہے اور خاص طور پر امریکی صدر، ایک مختلف مزاج رکھنے والے انسان ہیں اور اس کو بہترین طریقے سے ڈیل کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ اس کی خوشنودی کی جائے اور امریکہ جو کہے وہی دیگر ممالک کرے۔ امریکہ کی موجودہ ایڈمنسٹریشن کو سب سے زیادہ یہی اچھا لگتا ہے اور پاکستان جیسے ریاست جن کی کبھی بھی آزادانہ پالیسی نہیں رہی ہے، جو ہمیشہ بھیک اور عالمی طاقتوں کی خوشنودی کیلئے ہر حد تک جا سکتے ہیں، ایسے ایڈمنسٹریشن کیلئے بہت ہی فائدہ مند ہیں۔ پاکستان کو امریکہ کی طرف سے جب بھی کسی بھی مسئلے اور معاملے پر کہا گیا ہے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے قبول کی ہے اس کی کئی وجوہات ہیں، چین کے ساتھ تعلقات ہونے کے باوجود پاکستان کی اسٹیبلمشنٹ ہمیشہ امریکہ کے زیر اثر رہا ہے اور جب بھی امریکہ کو ضرورت پڑی ہے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے امریکہ کی خوشنودی کیلئے ہر طرح کے اقدامات پر عمل پیرا ہوا ہے، اس کی کئی مثالیں تاریخی طور پر موجود ہیں، افغان طالبان کو پناہ دینا، انہیں ٹریننگ دے کر سویت یونین کی فوج کے خلاف لڑنے میں مدد دینے سے لیکر پاکستان کے اندر امریکہ کو فوجی بیس دینے، حتیٰ کہ پاکستان کی سیاسی اور فوجی پالیسیوں پر بھی ہمیشہ امریکہ کسی نہ کسی طرح اثر رکھتا آیا ہے، یہی وجہ ہے کہ امریکہ کو پاکستان کسی نہ کسی طرح ہمیشہ عزیز رہا ہے گوکہ یہ بھی کوئی چھپی بات نہیں کہ پاکستان نے جہاں امریکہ کی خوشنودی کیلئے مختلف اقدامات اٹھائے ہیں وہی انہوں نے اندرونی طور پر امریکہ سمیت اپنے اتحادیوں کو جھوٹ اور فریب سے بھی نوازا ہے جسے لیکر ایک مرتبہ ٹرمپ نے اپنے پہلے صدارتی دور میں پاکستان کو آڑے ہاتھوں لیا، لیکن اب کی بار پاکستان ساوتھ ایشیا میں امریکہ کیلئے بھارت سے بہتر آپشن کی شکل میں موجود ہے جس کو بہتر انداز میں لوٹ کھوسٹ کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے اور جس سے کئی اہم فیصلے امریکہ اپنے حق میں لے سکتا ہے۔

ایک طرف جہاں بھارت کی آزادانہ حکومت اور دوسری جانب افغانستان سے امریکہ کے اثر و رسوخ کا خاتمہ اور تیسری جانب ایران کے ساتھ امریکہ دشمنی نے خطے میں امریکہ کے طاقت کو متاثر کیا ہے ان تمام ریاستوں کے بھیج پاکستان ایک واحد ریاست ہے جس کی اسٹیبلشمنٹ پر امریکہ براہ راست اثرانداز ہو سکتا ہے اس لیے امریکہ نے اپنے وقتی مفاد کو لیکر پاکستان کیلئے ایک سافٹ کارنر پیدا کیا ہے، بی ایل اے کی مجید بریگیڈ پر پابندی اسی سافٹ کارنر کے تناظر میں کیا گیا ہے تاکہ پاکستان کو چند معاملات میں ریلیف دیا جا سکے اور اسے خوش کیا جاسکے، البتہ یہ ذہن نشین کرلینا ضروری ہے کہ یہ پابندیاں کاغذی ہیں، عملی طور پر امریکہ بی ایل اے یا کسی بھی مزاحمتی تنظیم کے خلاف اصولی طور پر نہیں جاسکتی، کیونکہ اس وقت بی ایل اے نے ایسے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے ہیں جو امریکہ یا کسی بھی ایسے طاقت کیلئے سردرد بن سکے جو دنیا میں دہشتگرد نیٹ ورکس کو ڈیل کرتے آئے ہیں، بی اے ایل ایک علاقائی مسئلہ نہیں بلکہ وہ صرف پاکستان کے حدود میں بلوچ قومی ریاست کی بحالی کیلئے لڑ رہا ہے اور اپنے دفاع میں لڑ رہا ہے جس میں پاکستان نے جبری طور پر قبضہ کر رکھا ہے۔ امریکہ سمیت کسی بھی یورپی ممالک کے پاس ایک فیصد بھی ایسا کوئی جواز نہیں ہے جو انہیں بی ایل اے کے مدمقابل کر سکے البتہ چند وقتی فیصلے پاکستان جیسے ریاست کی خوشنودی کیلئے لیے جا سکتے ہیں جس کی مثال حالیہ دنوں امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے بی ایل اے پر پابندی کی شکل میں آیا ہے۔

مجید بریگیڈ پر پابندی کی بنیادی وجہ کیا ہے ؟

یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت بی ایل اے یعنی بلوچ لبریشن آرمی اور اس کا خصوصی فدائی دستہ، جو مجید بریگیڈ کے نام سے مشہور ہے، پاکستان کی سالمیت کے لیے انتہائی بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ بلوچستان کی آزادی کو پاکستان اپنے وجود کے لیے ایک خطرہ تصور کرتا ہے کیونکہ زمینی حوالے سے بلوچستان پاکستان کی نَےم* اور وسائل کے حوالے سے پاکستان کے لیے سانس کا کردار ادا کر رہا ہے۔ اس لیے پاکستان کو اس بات کا اچھی طرح علم ہے کہ اگر بلوچستان ایک آزاد ریاست بن جاتا ہے تو پاکستان کو جہاں اپنی نیم زمینی حدود کھونا پڑیں گی، وہیں دوسری جانب وہ ایران سے زمینی راستہ بھی کھو دے گا۔ اور سب سے اہم، وہ سمندری حدود سے مکمل طور پر محروم ہو جائے گا، یعنی پاکستان ایک لینڈ لاک علاقہ بن جائے گا، صرف سندھ کی طرف سے ایک چھوٹے سے پورٹ تک رسائی رہ جائے گی، البتہ 95 فی صد سمندری حدود کھو دے گا جو یقیناً پاکستان کے لیے موت کے برابر ہے۔ اس لیے اس خطرے کو محسوس کرتے ہوئے پاکستان دنیا بھر میں ایک مہم چلا رہا ہے کہ وہ بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچ قومی تحریک کو دہشت گردی کے طور پر متعارف کرائے۔ گو کہ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ بلوچ قومی تحریک اور بلوچ مسلح مزاحمت مکمل طور پر انسانی آزادی، عالمی قوانین، اور بلوچ قومی مفاد کے تحت ایک سیاسی عمل کے طور پر چل رہی ہے۔ بلوچ مسلح مزاحمت سیاسی سوچ کا نتیجہ ہے جس کا مقصد، طریقہ کار، عمل، فکر، اپروچ سب سیاسی مقاصد سے جڑے ہوئے ہیں۔ بلوچ قومی تحریک کی بنیاد ایک سیاسی اپروچ کے طور پر موجود ہے اور وہ کسی بھی طرح دہشتگردی کے زمرے میں نہیں آ سکتی۔ بلوچ قومی تحریک ایک ترقی پسند، انسانی حقوق اور انسانی آزادی پر یقین رکھنے والی سوچ کی بنیاد پر چل رہی ہے۔ البتہ بلوچ قومی تحریک اس حقیقت سے مکمل طور پر واقف ہے کہ کوئی بھی قابض ریاست احتجاج اور جلوس سے اپنا قبضہ ختم نہیں کرتی، اس لیے بلوچ سیاسی جدوجہدکاروں نے مسلح مزاحمت کو ایک سیاسی اپروچ کے تحت قبول کرتے ہوئے دشمن کے خلاف منظم کیا ہے۔ کیونکہ قبضہ خود ایک تشدد پر مبنی عمل ہوتا ہے اور اس کا خاتمہ بھی تشدد کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔

مجید بریگیڈ کے اگر تمام حملوں کا جائزہ لیا جائے جن میں زرپہازگ کے چار اہم آپریشنز، کراچی میں فدائی آپریشنز، کوئٹہ میں فوجیوں پر حملہ، تربت میں دشمن فورسز پر فدائی حملے، نوشکی اور پنجگور ہیڈکوارٹرز پر فدائی حملے، جعفر ایکسپریس ٹرین ہائی جیک کا واقعہ، یا دالبندین میں ریحان اسلم کی طرف سے چینی انجینئرز پر حملہ شامل ہیں، تو یہ تمام ٹارگٹ فوجی اور سیاسی رہے ہیں، ان میں کسی بھی جگہ عوام کو نشانہ نہیں بنایا گیا ہے۔ مجید بریگیڈ کے پاس اتنی قوت موجود ہے کہ اگر وہ کراچی میں سخت سکیورٹی حصار میں موجود چینی انجینئرز کو حملوں کا نشانہ بناکر اپنے ہدف حاصل کر سکتا ہے، تو وہ کسی بھی بڑے اجتماع پر حملے کر کے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں عام عوام کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ لیکن مجید بریگیڈ کے حملے ہمیشہ سیاسی اور فوجی ٹارگٹ رہے ہیں جو بلوچستان میں قابض پاکستانی فوج کے قبضے اور اس کی مشینری کو مضبوط رکھے ہوئے ہیں۔

مجید بریگیڈ کے حملوں کا ہمیشہ مقصد دشمن کے فوجی صلاحیتوں کو محدود کرنا، تاکہ وہ بلوچ عوام کے خلاف اپنی طاقت کا بے دریغ استعمال نہ کر سکے، اور اس مشینری کو تباہ کرنا جو اس کی مضبوطی کی وجہ ہے، اور ان غیر ملکی معاشی مفادات کو نشانہ بنانا جن کا مقصد بلوچ وسائل کی لوٹ مار اور بلوچستان میں جاری قابض فوج کی مشینری کی مدد کرنا ہے، جس کا بنیادی مقصد بلوچ تحریک کو کمزور کر کے یہاں اپنی نوآبادیاتی پالیسیوں کو مضبوط بنانا ہے۔

مجید بریگیڈ صرف ایک فدائی یونٹ نہیں بلکہ بلوچ قومی امنگوں کی ترجمانی کرتا ہے۔ اس یونٹ نے جہاں بلوچ سماج کے صنفی تضاد کا خاتمہ کر دیا ہے، وہیں مجید بریگیڈ ایک فوجی یونٹ کے بجائے عوام میں شعور، فکر اور سیاسی سوچ پیدا کرنے کا سبب بنا ہے اور عوام میں یہ آگاہی پھیلانے میں کامیاب ہوا ہے کہ بلوچ سرزمین پر ایک غیر ملکی طاقت قابض ہے، جس کے خلاف مزاحمت ایک ضروری عمل نہیں بلکہ ایک فرض شناس عمل بن چکا ہے۔ مجید بریگیڈ نے بلوچ قومی تحریک کے اندر ان عناصر کو بے نقاب کیا ہے جو تحریک کے نام پر دکانداری چلا رہے تھے اور تحریک کو محض ایک مہم کی حد تک محدود کرتے ہوئے اپنے مفادات حاصل کر رہے تھے۔

دنیا کے ہزاروں قوانین، انسانی شعور، انسانی فکر، جنگ کے اصول، بلکہ انسانی سوچ ہر انسان، قوم اور ریاست کو دفاع کا حق دیتے ہیں۔ اگر مجید بریگیڈ دہشت گرد ہے کہ وہ ایک قابض ریاست کے خلاف ایک مسلح مزاحمت کے ذریعے اس کے طاقتور مشینری کو تباہ کرتے ہوئے اس کے قبضے کے سامنے رکاوٹ بنا ہوا ہے، تو اس مطلب کو لے کر یوکرین کی فوج بھی دہشت گرد ہوگی جو روس کے خلاف اپنی زمین کا دفاع کر رہی ہے؛ اس مطلب کو لے کر اسرائیلی فوج بھی دہشت گرد بن جاتی ہے جو اس وقت امریکہ کی سب سے بڑی اتحادی کے طور پر موجود ہے اور جو کئی ممالک پر حملہ آور ہوکر بھی امریکہ کی سب سے بڑی اتحادی بنی پھرتی ہے؛ اس مطلب کو لے کر دنیا کی تمام اقوام کی فوجیں دہشت گرد بن جائیں گی جو اس وقت اپنی سرحدوں پر تعینات ہیں اور اپنی ریاستی حدود کا دفاع کر رہی ہیں۔ بلوچ لبریشن آرمی اور اس کی ذیلی ونگ مجید بریگیڈ اگر دہشت گردی کے زمرے میں اس وجہ سے آتے ہیں کہ وہ ایک قابض اور ایک غیر مقامی طاقتور فوج کے خلاف اپنے عوام، اپنی زمین اور اپنے ریاست کی دفاع کر رہے ہیں تو اس بنیاد پر دنیا کی تمام فوجیں دہشت گرد بن جائیں گی، کیونکہ دیکھا جائے تو مجید بریگیڈ ایک غیر ریاستی ادارہ ہو کر بھی بہتر منظم، اپنے ٹارگٹس کی سلیکشن میں زیادہ محتاط، اور اپنے اہداف کو نشانہ بنانے میں زیادہ متحرک دکھائی دیتا ہے جبکہ دوسری جانب ریاستی فورسز جن میں امریکہ خود بھی آ جاتا ہے، جنہوں نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے افغانستان، لیبیا، عراق اور دنیا بھر میں جس طرح دہشت گردی پھیلائی ہے وہ اپنے آپ میں سوالیہ نشان ہے۔

اگر پاکستانی فوج کی ہی مثال لیں، جس نے خیبرپختونخوا میں جس طرح بے دردی سے عام لوگوں کو نشانہ بنایا ہے، حالیہ دنوں میں ان کی اپنی حکومت کے مطابق پاکستانی فورسز کے ڈرون حملوں کی وجہ سے کئی معصوم لوگ شہید ہوئے ہیں جبکہ اگر مجید بریگیڈ کے حملوں کی نوعیت اور ان میں ہونے والے نقصانات کا جائزہ لیا جائے تو وہ خالصتاً فوجی اور سیاسی ٹارگٹ رہے ہیں اور ان کا نتیجہ ہمیشہ انہی ٹارگٹ کے خاتمے یا انہیں کمزور کرنے کی صورت میں نکلا ہے۔

امریکہ پابندیوں سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے

امریکہ کی موجودہ ایڈمنسٹریشن دنیا بھر میں ڈیلز ڈھونڈ پھر رہی ہے۔ امریکی صدر جہاں ایک طرف نوبل امن ایوارڈ چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں وہ دنیا بھر کے ریاستوں سے اس ایوارڈ کے لیے قبولیت چاہتے ہیں تو دوسری جانب وہ ہر جگہ ڈیلز ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان سے موزوں کوئی بھی ریاست نہیں ہو سکتی جس کی پالیسی میں کوئی بھی عوامی مفادات نہیں بلکہ لوٹ مار اور مفادات کی جنگ ہے۔

پاکستان میں اس وقت ایک فوجی حکومت موجود ہے جس کی عوام میں کوئی بھی مقبولیت نہیں ہے اور یہ فوج خود یہاں کے وسائل کی لوٹ مار میں ہمیشہ پیش پیش رہا ہے۔ اس سلسلے میں اب جب امریکہ نے دلچسپی کا اظہار کیا ہے تو پاکستانی فوج کے لیے یہ سونے پر سہاگا بن گیا ہے کیونکہ پاکستانی فورسز ہمیشہ سے ایسے اتحادی چاہتے ہیں جو وسائل کی لوٹ مار میں فوج کی مدد کر سکیں جبکہ بدلے میں فوج کو ڈالرز اور ان کے جنگوں میں مدد کر سکیں۔

چین اس کی ایک بڑی مثال ہے جنہوں نے بلوچستان میں دلچسپی کا اظہار کیا تو فوج نے اسے لوٹنے کا ایک انتہائی اہم ذریعہ بنا دیا۔ بلوچستان کی وجہ سے اس وقت کئی جرنیلز کھرب پتی بن گئے، حتیٰ کہ سی پیک میں فوج نے بڑے پیمانے پر کرپشن کرتے ہوئے مال لوٹا۔ جرنل عاصم سلیم کی کرپشن بعدازاں لیک ہوئی جس میں واضح طور پر دکھائی دیا گیا کہ انہوں نے سی پیک کے ذریعے کھربوں کے ڈالر کمائے اور اس کے ذریعے انہوں نے باہر کے ممالک میں آف شور کمپنیاں تک خریدی۔

چین کو اختیار دیا گیا کہ وہ بلوچستان بھر میں مختلف پروجیکٹس شروع کرے، اس کی ایک بڑی مثال سینڈک پروجیکٹ ہے جس کے ذریعے چین سالانہ اربوں ڈالرز کا انتہائی اہم وسائل لوٹ کر چین لے جاتا ہے جو چین کی حالیہ ضرورتوں کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جس کی مثال کاپر کی صورت میں ہے جو چین میں بیٹری اور دیگر الیکٹرانکس کو بنانے میں انتہائی ضروری ہوتا ہے اور چین اس وقت الیکٹرانک ایکسپورٹ کے معاملے میں ایک بڑی ریاست کی شکل میں بدل چکا ہے۔

امریکہ نے منرلز کو لیکر ایک بڑی دلچسپی کا اظہار کیا ہے جس کی مثال حالیہ دنوں یوکرین کے ساتھ منرلز کے معاملے میں معاہدے کی کوششیں شامل ہیں۔ امریکہ کو اس وقت منرلز کی ضرورت ہے اور پاکستان کو ایسے اتحادیوں کی ضرورت ہے جو جنگ میں حقیقی معنوں میں مدد کر سکیں جبکہ فوج کے لیے ڈالرز کے ذریعے بھی بن سکیں۔ پاکستانی فوج کا اصول ہے کہ جب اور جہاں بھی جنگ شروع ہو یا جنگ شروع کی جائے، اس میں سب سے پہلے مالی مفادات کا جائزہ لیا جائے اور لوٹ کھوسٹ کا ذریعہ تیار ہو، بعدازاں وہاں پر جنگ کو عملی شکل میں لڑنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ بلوچستان میں فوج کے مالی منصوبے ہوں یا خیبرپختونخوا میں فوج کے کاروبار، یہ سب اس کی واضح مثالیں ہیں۔

اس وقت پاکستان ٹیکنالوجی سے لیکر فوجی ساز و سامان اور اسلحہ کی ضرورتوں تک ہر حد تک ایسے اتحادیوں کی تلاش میں ہے جو کاؤنٹر انسرجنسی میں اس کی مدد کر سکیں اور اس کے لیے پاکستان کسی بھی حد تک اپنی ہر چیز گروی رکھنے کے لیے تیار ہے۔ پاکستان کے لیے بلوچ سرزمین یا کسی بھی خطے کے وسائل کی کوئی بھی حیثیت نہیں، وہ انہیں ہمیشہ اپنے ذاتی مفادات کے غرض سے استعمال کرتا آ رہا ہے اور انہیں لوٹنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے لیکن مشینری نہ ہونے اور بلوچ مزاحمت کی وجہ سے اس میں ہمیشہ رکاوٹ سامنے آتا رہا ہے۔

پاکستان اس وقت شدید اندرونی دباؤ کا شکار ہے، صرف انسرجنسی نہیں بلکہ پی ٹی آئی کی شکل میں وہ اس وقت سیاسی بحران کا بھی شکار ہے اور دنیا بھر میں بدنام ہے۔ اس وقت پاکستان میں ایک کرپٹ اور فوجی حکومت موجود ہے جس کی ایک کٹھ پتلی سیاسی حکومت بھی ہے لیکن وہ غیر مؤثر ہے جبکہ اصل ذمہ داریاں فوج خود نبھا رہی ہے، خارجہ پالیسیوں سے لیکر اندرونی مسائل تک، ہر معاملے کو فوج کو ڈیل کر رہی ہے۔ اس لیے پاکستان کے لیے فوج کا اس وقت امریکہ کا اتحاد انتہائی اہم ہو سکتا ہے اس لیے پاکستان اس کو حاصل کرنے کے لیے ہر انتہا تک جا سکتا ہے، جس میں منرلز سے لیکر کسی بھی معاہدے کے لیے پاکستان تیار ہو سکتا ہے۔

گوکہ امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو چین پسند نہیں کرتا لیکن چین کے پاس کوئی راستہ بھی نہیں، چین کے لیے جہاں ایک طرف پاکستان تو دوسری طرف بھارت ہے جس کے ساتھ اس کے زمینی مسائل پر جھگڑے چل رہے ہیں اور دوسری جانب خطے میں وہ دونوں بطور طاقت ور اور سپرپاور کے طور پر سامنے آنا چاہتے ہیں اور خطے میں اپنا غلبہ مضبوط رکھنا چاہتے ہیں۔ اس لیے چین ہر حد تک پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو قائم رکھنے میں اپنے مفاد کو بہتر دیکھتا ہے۔

امریکہ چونکہ ایک طرف پاکستان کے ساتھ ڈیل کرنا چاہتا ہے تو دوسری جانب وہ بھارت پر اپنے دباؤ کو بڑھانا چاہتا ہے جو حالیہ ادوار میں امریکی کی سپریمیسی کو قبول کرنے سے انکاری ہے جس کی مثال حالیہ دنوں پاک بھارت تنازع میں دیکھنے کو ملا۔ جب امریکہ نے پاکستان کی طرف ہاتھ بڑھایا تو انہوں نے سیدھا امریکہ کی بات مان لی جبکہ بھارت پاکستان کے ساتھ ہونے والے لڑائی کے دوران مسلسل امریکہ کی خواہشوں اور اپیلوں کو نظرانداز کرتا گیا۔ انہوں نے یہ واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ وہ اپنے کسی بھی معاملے میں تیسری فریق کو قبول نہیں کرے گا۔ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کے مطابق، انہوں نے امریکہ پر واضح کر دیا تھا کہ اگر پاکستان تنازع کا حل چاہتا ہے یا سیزفائر کی خواہش رکھتا ہے تو اس کے جرنیل براہ راست بھارت سے اپیل کرے کہ وہ سیزفائر چاہتے ہیں۔

یعنی بھارت خود کو بطور ایک طاقت کے طور پر دیکھتا ہے اور وہ امریکہ کی خطے میں سپریمیسی کو قبول کرنے سے انکاری ہے جس کی وجہ سے امریکہ اب بھارت کو پریشرائز کرنے، انہیں دباؤ میں لانے اور ان سے اپنے من پسند فیصلے حاصل کرنے کے لیے جہاں ایک طرف ٹریڈ وار شروع کر چکا ہے تو دوسری جانب بھارت کو بلیک میل کرنے کے لیے پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر دکھانے کا ڈرامہ کر رہی ہے۔

یہاں اصل کھلاڑی پاکستان نہیں بلکہ بھارت ہے۔ اگر بھارت امریکہ کی سپریمسی والی پوزیشن کو قبول کرے، اور امریکہ کی اجارہ داری کو قبول کرے تو یہ فیصلے دنوں میں معطل ہو سکتے ہیں، لیکن چونکہ بھارت اس وقت ایک عالمی طاقت کے طور پر خود کو دیکھ اور سمجھ رہا ہے اور خاص کر معاشی حوالے سے حالیہ دنوں جس طرح بھارت نے ترقی کی ہے، یہ مشکل نظر آ رہا ہے کہ بھارت امریکہ کی سپریمیسی کو اس حد تک قبول کرے جس طرح پاکستان یا کوئی بھی ترقی پذیر ممالک قبول کر رہی ہے۔

اس وقت اصل جنگ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات نہیں بلکہ بھارت کا رویہ ہے جو امریکہ کے ساتھ بدل چکا ہے اور عالمی منظر نامے میں بدلتا ورلڈ آرڈر جس میں اب امریکہ دنیا کی واحد سپرپاور نہیں جس کے اشاروں سے تمام ممالک اپنی خارجہ پالیسیاں ترتیب دے رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہی ہے کہ آنے والے وقت میں بھارت امریکہ کو کس طرح ردعمل دے گا اور یہی چیزیں امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کو بھی آنے والے وقت میں واضح کرنے میں کامیاب ہوں گی۔

امریکی پابندیوں سے بی ایل اے اور مجید بریگیڈ کے آپریشنل صلاحیتوں پر کیا فرق پڑ سکتا ہے؟

بلوچ تحریک کے حوالے سے اکثر ایک غلط فہمی یا غلط سوچ پھیلائی گئی ہے اور پنجابی دانشوروں نے اس کی تبلیغ اس حد تک پروپیگنڈے کی شکل میں کی ہے کہ کچھ لوگ، تجزیہ نگار، حتیٰ کہ چند عالمی تجزیہ نگار بھی یہی غلط فہمی حقیقت کے طور پر سمجھتے ہیں اور وہ غلط فہمی یہ ہے کہ وہ بلوچ تحریک، بلوچ جدوجہد، بلوچ قومی مزاحمت اور مسلح مزاحمت کو عالمی طاقتوں، خطے کے ممالک، فارن سپورٹ، فارن فنڈنگ اور بھارتی سپورٹ یا یورپی سپورٹ یا مدد سے جوڑتے ہیں اور یہی ان تجزیہ نگاروں کی سب سے بڑی غلطی ہے۔ افغانستان میں طالبان کے قبضے سے پہلے سب یہی چہ مگوئیاں کر رہے تھے، حتیٰ کہ پاکستانی آفیشل ادارے بھی یہی بیانیہ بنا رہے تھے کہ اب بلوچ مزاحمت دم توڑ دے گی، افغانستان سے یہ آپریٹ کر رہے ہیں اور اب افغان حکومت جو طالبان کی صورت میں آئے گی، ان کی آپریشنل صلاحیتوں کو محدود کرے گی لیکن حقیقت اس کے مکمل الٹ دیکھنے کو ملا کہ وقت کے ساتھ ساتھ مجید بریگیڈ کے حملوں کی نوعیت اور شدت میں کافی اضافہ دیکھنے کو ملا لیکن اس کی بھی بنیادی وجہ طالبان کا افغانستان میں آنا نہیں تھا، یا ایرانی حکومت میں بدلاؤ یا تبدیلیوں کا اس پر کوئی اثرات نہیں بلکہ اس کا تعلق بلوچ مزاحمت کے اندرونی تبدیلیوں کی وجہ سے ہے۔

2018 میں جب بی ایل اے کے سربراہ استاد اسلم نے اپنے بیٹے ریحان کے بطور فدائی بننے کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے اسے مشن پر بھیجا، تو اس عمل کا تحریک کے اندرونی حلقوں میں الگ نوعیت کے اثرات پڑے، جس کے بعد سنگت ازل، رازق اور وسیم کے فیصلے اور فدائی حملوں نے اس کی نوعیت کو مزید تبدیل کر دیا جبکہ گراؤنڈ میں سیاسی جدوجہد اور ریاستی کریک ڈاؤن و سیاسی آگاہی نے اس حقیقت کو مزید مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا کہ دشمن کے خلاف مسلح مزاحمت کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں، جبکہ مسلح مزاحمت میں سرمچاروں کے جانب سے دشمن کے خلاف Offensive operations، شدید نوعیت کے حملے، دشمن کے مورچوں میں گھسنے نے دیگر سرمچاروں اور عوام میں کافی اثرات چھوڑے، اسی طرح براس کے اتحاد نے بلوچ عوام کے اندر تحریک کے حوالے سے موجود ابہام کو بھی ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا، ایک ایسے وقت میں جب، پہلے ہر تنظیم کے دوسرے تنظیم کے ساتھ مسائل اور جھگڑے چل رہے تھے، براس کی صورت میں تمام تنظیموں کے سرمچار ایک مورچے میں دشمن کے خلاف مسلح مزاحمت کی شکل میں آئے، جس کے تحریک اور سماج میں کافی مثبت اثرات مرتب ہوئے۔

اگر بلوچ تحریک کی شدت میں اضافہ ہوا ہے تو اس کی وجہ نہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کا آنا ہے، اور نہ ہی امریکہ یا دیگر ریاست کا کسی فیصلہ یا بھارت کی جانب سے کوئی سپورٹ یا اس طرح کی باتیں جو دشمن نے بطور بیانیہ پھیلایا ہے، اگر اس کا تعلق افغانستان یا بھارت کی سپورٹ سے رہا ہوتا تو دہائیوں پہلے سے پاکستان اور اس کے دانشور یہی دعویٰ کرتے آ رہے ہیں کہ بلوچ تحریک کو بھارت اور افغانستان کی سپورٹ حاصل ہے تو اسی نوعیت کی جنگ پہلے کیوں نہیں دیکھنے کو ملی؟ کیونکہ دشمن اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں بلوچ تحریک اندرونی طور پر خود کو مضبوط کرنے میں کامیاب ہوا ہے جس کی وجہ سے بلوچ قومی تحریک مضبوط شکل اختیار کر چکی ہے۔ مجید بریگیڈ کسی خارجی ریاست کی سپورٹ یا مدد کا نتیجہ نہیں اور نہ ہی مجید بریگیڈ کا مقصد دہشتگردانہ کارروائیاں انجام دینا ہے، مجید بریگیڈ کے سپاہی انہی کلاشنکوف کے ساتھ دشمن کے کیمپوں میں گھس جاتے ہیں، دنوں تک کیمپوں پر اپنا قبضہ قائم رکھتے ہیں اور شہادت سے پہلے یہ نوجوان ویڈیو پیغامات کی شکل میں عوام سے خطاب اور گفتگو کرتے ہیں، جن کی بہادری کو دیکھ کر خود بلوچ عوام کو اس حقیقت سے آگاہی مل رہی ہے کہ بلوچ قومی تحریک اس وقت دشمن کے خلاف ایک منظم قوت کی شکل میں موجود ہے اور بلوچ نوجوان اس جنگ کو کس مخلصی کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔

مجید بریگیڈ کی پیدائش یا اس کی مضبوطی کا تعلق تحریک کے اس جذبے سے ہے جو جنگ کو ایک منطقی انجام تک پہنچانے کی سوچ اور صلاحیت رکھتے ہیں۔ 2018 میں بلوچ قیادت میں ایک بہت بڑی شفٹ آئی جس میں بلوچ قومی مسلح مزاحمت سے ان افراد کو نکالا گیا جو بطور قیادت اداروں پر اپنی اجارہ داری رکھ کر تحریک کی ترقی اور مضبوطی کے سامنے رکاوٹ بنے ہوئے تھے اور جن کی موجودگی کی وجہ سے تحریک اندرونی اختلافات اور مسائل کی زد میں تھا، جن کے بعد تحریک ایک ادارتی شکل میں منظم ہوا اور قیادت بھی ادارتی شکل میں پیدا ہو کر آئی جس کی وجہ سے تحریک ایک منظم شکل اختیار کرتا گیا۔ اب چونکہ تنظیم اور تحریک ہر آنے والے دن میں بیشتر ادارتی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے، ایسے وقت میں یہی امید رکھنی چاہیے کہ مجید بریگیڈ پر امریکی پابندیوں کے کوئی اثرات نہیں آئیں گے بلکہ جس حد تک تحریک منظم اور متحرک ہوتا جائے گا مجید بریگیڈ کے آپریشنل صلاحیتوں میں مزید شدت اور جدت آتی جائے گی اور آنے والے دنوں میں مجید بریگیڈ کے حملے انتہائی خوفناک ہوں گے۔

بلوچ قومی تحریک کسی خارجی قوت کی مرضی و منشا سے شروع نہیں ہوا تھا اور نہ ہی مجید بریگیڈ کو فعال کرنے میں کسی خارجی قوت کی عمل و دخل موجود تھی جو آنے والے دنوں میں مجید بریگیڈ پر کوئی اثرات مرتب کر سکتے ہیں، بلوچ فدائی اسلحہ سے نہیں بلکہ جذبے اور شعور سے پیدا ہوتے ہیں اور ان کا جذبہ و شعور دشمن پر خاری ضرب کا سبب بن رہی ہے۔ جس طرح امریکہ کی پابندیوں سے 2019 میں بی ایل اے کے آپریشنل صلاحیتوں پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوئے اسی طرح مجید بریگیڈ پر پابندیوں سے بھی مجید بریگیڈ کی آپریشنل صلاحیتوں پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوں گے، امریکہ کا فیصلہ صرف کاغذی حد تک موجود رہے گا اور وقت آنے پر یہ کسی بھی وقت ہٹ سکتا ہے۔ امریکہ کی تاریخ ایسے درجنوں فیصلوں سے بھری پڑی ہے، جس کی مثال حالیہ دنوں شام کی جولانی ہو جس کے ساتھ امریکی صدر نے سعودی عرب میں ملاقات کی تھی جس پر ایک وقت امریکی پابندیاں عائد تھیں۔ اسی طرح طالبان کی مثال لے لیں جس کے خلاف امریکہ نے 20 سال تک لڑائی کی اور بالآخر ان کے ساتھ معاہدہ کرتے ہوئے افغانستان ان کے حوالے کیا اور اب انہی کو مالی سپورٹ کر رہی ہے تاکہ وہ افغانستان کو ری بلڈ کر سکیں۔ اسی طرح عراق کی حزب پارٹی کی مثال لے جو عراق-ایران کی جنگ میں امریکہ کی اتحادی پارٹی تھی اور جب جنگ ختم ہوئی اور بعدازاں جب انہوں نے عراق پر قبضہ کرنے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے حزب پارٹی پر کئی جرائم کا الزام لگا کر اسے دہشتگرد قرار دیا۔

امریکی تاریخ ایسے کئی مثالوں سے بھری پڑی ہے، اسی طرح ٹرمپ ایڈمنسٹریشن کی مثال لیں، جس نے اپنی پہلی حکومت کے دوران پاکستان پر دھوکہ اور فراڈ کا الزام لگا کر اس کی ملٹری پر دہشتگردوں کو سپورٹ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے اس کی فنڈنگ روکنے کا فیصلہ کیا تھا جبکہ اب جب وہ بھارت کو سبق سکھانا چاہتا ہے اور انہیں اپنے دباؤ میں لانا چاہتا ہے تو اسی پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات بنانے کی بات کر رہی ہے اور اسی فوج کی کاؤنٹر انسرجنسی کو لیکر تعریفیں کر رہی ہے۔ لیکن جس طرح بی ایل اے کے ترجمان نے اپنے بیان میں واضح کر دیا تھا، مجید بریگیڈ پر ان پابندیوں کے کوئی اثرات نہیں پڑیں گے البتہ پاکستان اپنے لوگوں کو کسی حد تک مطمئن یا خوش کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے جن کی مورال حالیہ بی ایل اے، براس اور مجید بریگیڈ کے خطرناک حملوں کی وجہ سے شدید ڈی مورلائز ہو چکے ہیں اور ان کی فوج پر سوالیہ نشان اٹھ رہے ہیں کہ وہ بلوچستان میں بلوچ سرمچاروں کے ہاتھوں مکمل شکست کا شکار ہے جبکہ کچھ لوگ ان ناکامیوں کی وجہ سے آئی ایس آئی کے چہیتے سرفراز بگٹی اور فوج کے سربراہ عاصم منیر کا استعفیٰ بھی مانگ رہے ہیں اور یہ سوالات اب فوج کے اندر بھی اٹھ رہے ہیں، امریکہ کے اس فیصلے کے بعد فوج کا سربراہ اور سرفراز بگٹی وقتی طور پر اپنے لوگوں کو شاید کچھ حد تک خوش کرنے میں کامیاب ہو جائیں لیکن تحریک پر اس کے کوئی بھی اثرات مرتب نہیں ہوں گے بلکہ یہی خیال کیا جا رہا ہے کہ آنے والے وقت میں مجید بریگیڈ انتہائی خطرناک حملوں کی جانب جا سکتا ہے کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ جس طرح تحریک نے اندرونی طور پر مضبوطی اختیار کی ہے اسی طرح بی ایل اے کے آپریشنل صلاحیتوں میں مضبوطی آنے کی وجہ سے مجید بریگیڈ کے آپریشنل صلاحیتوں میں بھی مضبوطی پیدا ہو چکی ہے جو بی ایل اے کے فدائی یونٹ کو دنیا بھر میں ایک طاقتور ترین فوجی یونٹ کی شکل میں بدل سکتا ہے اور پاکستان کے لیے تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔

بلوچ تحریک کیلئے کیا اہم ہے ؟

کسی بھی قومی اور عوامی مزاحمت کے لیے یہ اہم نہیں ہے کہ دنیا اس کے حوالے سے کیا کہتی ہے۔ جب ویتنام امریکہ کے قبضے کے خلاف لڑ رہا تھا تو امریکہ اور یورپ میں ویتنامیوں کو بطور دہشت گرد دیکھا جاتا تھا، لیکن جب انہوں نے اپنی تحریک کو کامیاب بناتے ہوئے ویتنام سے امریکہ کے قبضے کا خاتمہ کیا تو دنیا بھر میں ویتنامی لوگوں کو عزت و احترام سے دیکھا گیا۔ جب بھارت میں انگریز قبضے کے خلاف نوجوان مزاحمت کر رہے تھے تو ابتدائی دنوں میں انہیں بھی دہشت گرد قرار دیا گیا، لیکن جب بھارت برطانوی قبضے سے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا تو دنیا بھر میں بھارت کی عزت کی گئی۔ حالیہ دنوں میں ایک بھارتی لیڈر، ششی تھرور نے برطانیہ کی پارلیمنٹ میں جا کر انہیں ان کے قبضے، جرائم اور دہشت گردی سے آگاہ کیا، جبکہ لوٹ مار کے حوالے سے انہوں نے برطانیہ کو کَنسَیشن دینے کی بات کی۔

اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ جب حملے کے ابتدائی دنوں میں روس نے یوکرین کے وجود سے انکار کیا اور اسے ایک کٹھ پتلی اور مصنوعی ریاست قرار دیتے ہوئے، تاریخی طور پر روس کا حصہ کہا اور اس کے وجود کو تسلیم نہ کیا، تو یوکرین نے سرینڈر کرنے سے انکار کیا اور روس کی عظیم قوت اور طاقت کا میدانِ جنگ میں مقابلہ کیا۔ اپنے ریاست کا دفاع کرنے کے بعد یہی روس مجبور ہوا کہ وہ ایک ہی ٹیبل پر یوکرین کے ساتھ مذاکرات کرے۔

امریکہ کو دیکھ لیجیے، دنیا بھر میں امریکہ کے جرائم اور ناانصافیاں سب کے سامنے ہیں۔ غزہ میں اسرائیلی نسل کشی کو سپورٹ کرنے سے لے کر افغانستان، عراق، لیبیا، شام اور دیگر ممالک میں اس ریاست کے جرائم تک، سب واضح ہیں۔ لیکن اس کے باوجود دنیا بھر کی حکومتیں اس ریاست کے ساتھ تعلقات قائم کرنا چاہتی ہیں، اور امریکہ کے ساتھ بہتر تعلقات کو اپنے قومی مفاد میں سمجھتی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ اس کی طاقت ہے۔ ہر ریاست امریکہ کے ساتھ مذاکرات اور تعلقات اس لیے رکھتی ہے کہ اس وقت امریکہ دنیا کی طاقتور ترین فوج رکھتا ہے اور معیشت کے اعتبار سے بھی دنیا کا سب سے طاقتور ملک ہے۔

جب کوئی قوم یا تحریک طاقتور اور ناقابلِ شکست بن جاتی ہے تو پھر دنیا بھر کی طاقتیں خود اس کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کو اپنے حق میں بہتر سمجھتی ہیں۔ بلوچ قومی تحریک کے لیے اس وقت یہ ضروری نہیں کہ دنیا کیا کہتی ہے، بلکہ اصل ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنی قومی تحریک کو مزید طاقتور بنائیں، مسلح مزاحمت کو مزید قوت بخشیں۔ آج اگر ہم ہزاروں میں لڑ رہے ہیں تو ہمیں دشمن کے خلاف لاکھوں نوجوانوں کو لڑنے کے لیے تیار کرنا چاہیے۔ بلوچ قوم کے ہر فرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ بلوچ قومی فوج میں اپنی سروس دے۔

جب ہم بطور تحریک ایک طاقتور قومی فوج کی شکل میں منظم ہوں گے، اپنی سرزمین کے مالک بنیں گے اور دشمن کے لیے پورے بلوچستان کو تنگ کرتے ہوئے اسے بلوچستان سے نکالنے میں کامیاب ہوں گے، تو یہی دنیا کی بڑی سے بڑی طاقتیں خود تعلقات قائم کرنے کے لیے سامنے آئیں گی۔ ہمارے لیے ضروری یہی ہے کہ ہم ایک طاقتور فوج کا قیام عمل میں لاتے ہوئے دشمن کو بلوچستان سے نکالنے میں کامیابی حاصل کریں، اپنے علاقوں کو دشمن کے قبضے سے آزاد کریں اور انہیں اپنے زیرِ کنٹرول لائیں۔ تب دنیا ہماری طرف دیکھے گی اور ہمارے ساتھ تعلقات قائم کرے گی۔

اس وقت بڑی طاقتیں ہمارے مقابلے میں دشمن کی فوج کو ایک بڑی طاقت کے طور پر دیکھ رہی ہیں، اسی لیے وہ ریاست کے ساتھ مذاکرات کو ترجیح دے رہی ہیں۔ اگر ہم ایک طاقتور فوج کی صورت سب کے سامنے ہوں اور اپنے علاقوں پر اپنا کنٹرول قائم کریں، تو پھر اس فوج کی طاقت دنیا کے سامنے ایک حقیقت بن کر آئے گی اور یہ بھی واضح ہو جائے گا کہ بلوچستان کے اصل وارث کون ہیں۔ ہماری توجہ اور سوچ اسی قوت اور طاقت کو بڑھانے پر صرف ہونی چاہیے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔